وہ ’’کراچی لٹریچر فیسٹیول‘‘ کا آخری دن تھا۔ لان میں رکھی ہوئی کرسیوں کے سامنے بنے ہوئے اسٹیج پر بہت سارے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے مگر اس محفل میں وہ خاتون نہیں تھی جو اپنے واکنگ اسٹیج کے ساتھ آتی تھی اور اسے سہارے کے ساتھ اسٹیج پر بٹھایا جاتا تھا۔ اس خاتون کے نہ ہونے سے وہ پرہجوم ادبی میلہ کتنا خالی خالی اور سونا سونا محسوس ہو رہا تھا۔ وہ سب لوگ اداس تھے جن کے موبائل میں اس دن یہ میسیج آیا تھا کہ ’’ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو انتقال کر گئیں‘‘
ڈاکٹر حمیدہ کھڑو کا یہ تعارف نہ صرف ادھورا ہے بلکہ بڑی حد تک غلط بھی ہے کہ ’’وہ سابق وزیر تعلیم تھیں‘‘ یہ تعارف تو ایسا ہوا جیسے ہم شیخ ایاز کے لیے لکھیں کہ ’’وہ سابق وائس چانسلر تھے‘‘
جس طرح شیخ ایاز کا ادبی رتبہ ان کے انتظامی عہدے سے بڑا ہے ؛ اسی طرح ڈاکٹر حمیدہ کھڑو کا علمی قد وزارت کی کرسی سے کہیں اونچا ہے۔
لاڑکانے کی عجیب مٹی سے جنم لینے والی وہ لڑکی جس نے فائن آرٹ اور انگلش لٹریچر میں ڈگری لینے کے بجائے تاریخ جیسے انتہائی خشک سبجیکٹ کو نہ صرف ماسٹرس بلکہ اپنی پی ایچ ڈی کے لیے بھی منتخب کیا۔ وہ حقیقی طور پر جدید سندھ کی پہلی دانشور خاتون تھی۔ جب وہ نوجوان تھی تب اس کے دل میں امنگ تھی کہ وہ تاریخ کی دھارا کو تبدیل کر پائے گی مگر کچھ عرصہ سندھ یونیورسٹی میں قومپرست مزاج رکھنے والے طلبہ کو پڑھانے اور پھر ’’سندھ نیشنل الائنس‘‘ کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست کا مختصر سفر کرنے کے بعد انہیں اس خیال اتفاق کرنا پڑا کہ ’’تاریخ سے صرف اتنا سیکھا جا سکتا ہے کہ تاریخ سے کچھ بھی سیکھا نہیں جاسکتا‘‘ ۔
وہ لڑکی جو کپڑوں سے زیادہ کتابوں سے لگاؤ رکھتی تھی۔ جس نے ساری زندگی تحقیق میں گذاری۔ جس نے تاریخ عالم سے دلچسبی رکھنے کے باوجود سندھ کی تاریخ سے محبت کی۔ اس کا خواب تھا کہ وہ اپنی دھرتی کی اس تاریخ کو مرتب کرے اور پھر سے لکھے جس تاریخ کے اوراق حالات کے طوفاں میں اڑ گئے۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ سندھ کی تاریخ کو نئے سرے سے رقم کرے ۔ اس کے پاس جےئے سندھ تحریک سے تعلق رکھنے والے جذباتی لڑکے آتے تھے اور وہ ایک شفیق ماں کی طرح انہیں سمجھانے کی کوشش کرتی کہ ’’تاریخ تبدیلیوں کا رکارڈ ہے۔ اس کو پڑھو اور سمجھو کہ کوئی بھی تبدیلی محض جذبات سے نہیں آتی‘‘
ڈاکٹر حمیدہ کھڑو کو تاریخ سندھ کے ہر دور سے دلچسبی تھی۔ اس کو بہت شوق تھا کہ راجہ داہرسے پہلے بلکہ اس کے والد چچ سے بھی قبل جب قدیم سندھ پر بدھ مت کے پیروکار ’’رائے خاندان‘‘ کی حکومت تھی تو اس وقت لوگ کس طرح سوچا کرتے تھے؟ اس وقت عوام کا رہن سہن اور نہ صرف کا آرکیٹیکچر بلکہ ان کی نفسیات کیسی تھی؟ ان کے کلچر پر کس بات کا اثر تھا؟ کیا سندھ کا معاشرہ پدری نفسیات والا تھا یا وہ بھیرو مل جیسے وہ ہندو دانشور درست تھے جن کا خیال تھا کہ سندھ شروع سے مادری نفسیات کی مالک رہی ہے؟ آخر تاریخ میں سندھ کا کردار وہ کیوں نہیں رہا جو کبھی ’’موہن جو دڑو‘‘ کا تھا؟ تاریخ سندھ ارتقاء کے راستے سے کیوں بھٹک گئی؟ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟
وہ لڑکی یورپ میں بیٹھی ان سوالات پر سوچتی اور اپنے پروفیسرز سے ڈسکس کرتی کہ تاریخ کن قوانین پر بنیاد رکھتی ہے؟ کیا تاریخ صرف اتفاقات کا مجموعہ ہے؟ کیا تاریخ کسی شعوری کوشش کا کارنامہ ہے؟ کیا تاریخ اقتداری کشمکش کا رکارڈ ہے؟ کیا تاریخ طاقتور افراد کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی داستان ہے؟ کیا تاریخ کو عوام اپنی روزمرہ والی دھیمی زندگی کے سفر سے اس طرح سینچتے ہیں جس طرح وہ اپنے کھیتوں پر ہل چلاتے ہیں اور اس میں بیج چھڑک کر اس کو سیراب کرتے ہیں؟ کیا تاریخ اس طرح بنتی ہے جس طرح دیہاتی عورتیں ساتھ مل بیٹھ کر رلی بناتی ہیں؟ شادی بیاہ کے موقعوں پر پانچ چھ توے قطار میں رکھ کر روٹیاں پکاتی ہیں؟ صبح کو جلدی بیدار ہوتی ہیں اور دیوار پر بیٹھے ہوئے کوے کو اڑاتے ہوئے لسی ماٹی میں لسی بناتی ہیں اور شام کو اپنے میلے بچوں کو نہلاتی ہیں اور ان کے خشک بالوں میں سرسوں کا تیل ڈال کر ان کی کنگھی کرتی ہیں؟ کیا تاریخ اس طرح بنتی ہے؟ یا تاریخ حملہ آور لشکر کے گھوڑوں کے سموں سے وجود میں آتی ہے اور فاتحین کی تلواریں اسے مخصوص رخ دیتی ہیں؟
تاریخ ایک حقیقت ہے یا افسانہ؟ یہ سچ ہے ہے یا جھوٹ؟ یہ حقیقی خبروں کا مجموعہ ہے یا خواہشات کا عکس؟ تاریخ کیا ہے؟ اور سندھ کی تاریخ کیا ہے؟ یہ کس راستوں سے گذری؟ بدھ مت کا دور کیسا تھا؟ برہمن دور کی سوچ کیا تھی؟ عرب دور میں سندھ نے کس طرح محسوس کیا؟ سومرا دور میں سندھ کیا سوچتا رہا؟ اوہ سمہ دور میں لوگ کس طرح محسوس کرتے تھے؟ وہ کون سے خواب دیکھتے تھے؟ اس وقت ان کے لوک گیتوں میں وہ خوشبو کیوں پیدا ہوئی جو صرف آزادی میں پیدا ہوتی ہے؟
اور تاریخ میں فرد کا کردار کیسا رہتا ہے؟ کیا دودو ہیرو تھا؟ کیا چنیسر ولین تھا؟ کیا تاریخ ایک فارمولا فلم ہے جو ہیرو اور ولین کے بغیر وجود میں نہیں آتی؟ کیا تاریخ سب کچھ ہے؟ کیا تاریخ کچھ بھی نہیں؟ یہ ایک مہم ہے اور ایک خبط ہے؟
ساری زندگی ان سوالات پر سوچنے والی وہ خاتون ذاتی طور پر تاریخ سندھ کے انگریز دور سے بہت دلچسبی رکھتی تھی۔ اس کی تھکی اور اداس آنکھوں کے سامنے وہ شہر مٹتا جا رہا تھا جس شہر کو اس نے بچپن اور جوانی میں دیکھا۔ وہ شہر تو اب ویسا بھی نہیں رہا جیسا ستر کے عشرے میں تھا۔ جب حمیدہ کھڑودو تلوار والے مین روڈ پر اپنے ہوئے اپنے آبائی گھر کے صحن میں بیٹھی سوچتی تھی۔ وہ شہر کس قدر پرامن اور پرسکون تھا۔ جب چاندنی راتوں میں وہ ناریل کے درختوں کے نیچے کرسی رکھ کر دیر تک بیٹھی رہتی اور اس کو بہت سارے ستاروں والے آسماں میں نظر نہ آنے والے پرندوں کی بولیاں بہت بھلی لگتیں ۔ اس کو وہ اینگلوانڈین کلچر اچھا لگتا تھا جو اس نے اپنے بچپن میں دیکھا۔ کراچی کی کشادہ سڑکیں اور اس پر چلنے والے وکٹوریہ تانگے اور کبھی کبھی اتفاق سے نظر آنے والی وہ اولڈ اسٹائل کار جس کو ایک گورامخصوص اسٹائل سے چلاتا تھا اور جس کے ساتھ خاموشی کے ساتھ بیٹھی ہوتی تھی وہ سفید اور گلابی رنگت والی میم جس نے ہلکے نیلے رنگ کی ہیٹ پہنی ہوتی تھی اور جس کے ہاتھ دستانوں سے ڈھکے ہوتے تھے۔ مگر اس دور میں موٹریں صرف انگریزوں کے پاس نہ تھیں مگر جن کے پاس بھی تھیں ان کو تھوڑی سی آبادی والے شہر کے اکثر لوگ جانتے تھے کہ ’’پوم پوم‘‘ کرتی ہوئی یہ موٹر کس کی ہے؟
ڈاکٹر حمیدہ کھڑو کی دلچسبی انگریز کلچر تک محدود نہ تھی۔ حالانکہ اس کو اس دور کا لائف سٹائل اچھا لگتا تھا مگر وہ ایک سنجیدہ خاتون تھی۔ اس کو زیادہ دلچسبی تھی ان فیصلوں میں جن کو لیتے ہوئے انگریزوں نے قوانین بنائے۔ ان قوانین کے معرفت کس کا استحصال ہوا؟ ان قوانین کو کس نے کس کے خلاف استعمال کیا؟ سندھ میں بیراج سسٹم متعارف ہونے سے زمینداری کا کلچر کس طرح تبدیل ہوا؟ زیادہ زرخیز زمینیں کس کے حصے میں آئیں؟ کس نے انگریزوں سے فاعدے حاصل کیے؟ اور پیری مریدی کا کلچر انگریز دور سے قبل اورا نگریز دور میں کیسا تھا؟ کون سے پیر اپنے وطن کو آزاد اور خوشحال دیکھنا چاہتے تھے؟ انگریزوں کے خلاف چلنے والی مشہور ’’حر تحریک‘‘ کے حقیقی اسباب کون سے تھے؟ اس میں کس کا کردار کیسا رہا؟ کیا یہ ایک مقامی مسئلہ تھا؟ کیا یہ دوسری جنگ عظیم کا پس منظر رکھنے والی ایک عالمی تحریک سے جڑی ہوئی بغاوت تھی؟ اور انگریزوں کے جانے کے بعد جب پاکستان بنا تب ملک کے صوبوں کو متوازن رکھنے اور سب کو ایک جیسے حقوق نہ دینے کے پیچھے کیا عوامل تھے؟ مشرقی پاکستان کیوں الگ ہوا؟
وہ خاتون ساری زندگی ایسے سنجیدہ سوالات پر سوچتی رہی ۔ وہ خاتون جو پاکستان بننے کے بعد سندھ کے پہلے چیف منسٹر محمود ایوب کھڑو کی چہیتی بیٹی تھی۔وہ ایوب کھوڑو جس کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کی کبھی نہیں بنی۔ ایک ہی شہر سے تعلق رکھنے والے یہ دو کردار ساری زندگی ایک دوسرے سے دور رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ تاریخ کی دھارا اچانک تبدیل ہوجائے گی اور وہ اپنی تمام تر عوامی مقبولیت کے ساتھ پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔ اس لیے انہوں نے اپنی بڑی بیٹی کی سیاسی پرورش نہیں کی۔ مگر تین مرتبہ سندھ کے وزیر اعلی رہنے والے محمد ایوب کھڑو کی شدید خواہش تھی کہ اس کی بیٹی اگر پاکستان نہیں تو کم از کم سندھ کی سیاست میں اہم کردار ادا کرے۔ اس لیے انہوں نے اپنے سیاسی مخالف اور ذاتی دوست جی ایم سید سے کہا تھا کہ اس کی بیٹی کی سیاسی تربیت کرے۔ جی ایم سید نے کوشش بھی کی مگر وہ کامیاب نہیں ہو پائے۔ اس ناکامی کی تین وجوہات تھیں۔ ایک تو وہ اپنے گاؤں والے گھر پر نظربند تھے۔ دوسرا ان کی تحریک پر ایک مخصوص عرصے کے دوراں بائیں بازو والے قومپرستوں کا اثر بڑھ گیا تھا ور تیسرا وہ بوڑھے ہو چکے تھے۔ اس لیے جی ایم سید اپنے دوست کی بیٹی سے وہ کردار ادا نہ کرواسکے جو ان کی بھٹو مخالف سیاست کو مضبوط سہارا دیتا۔ مگر ڈاکٹر حمیدہ کھڑو ہمیشہ اپنے چچا جی ایم سید کی تعریف کرتی رہی۔ وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ ’’سائیں صرف ایک سیاستدان نہیں ایک عظیم عالم اور ایک بہت بڑے مورخ بھی تھے۔ انہوں نے تاریخ کو کس رنگ میں دیکھا؟ اس بات پر اختلاف ہوسکتا ہے مگر انہو ں نے جس طرح سندھ کے اہم کرداروں کے خاکے لکھ کر تاریخ کے ایک دور کو محفوظ کیا ہے ان کا وہ کارنامہ ناقابل فراموش ہے‘‘
وہ خاتون جو علمی عمل اور کتابی سیاست کی سب سے بڑی حامی تھی وہ خاتون اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ کیا ان کے خاندان والوں اور ان سے محبت کرنے والوں نے اسی برس کی ایک خاتون کو دفن کیا؟