پھر ایک پر امن احتجاج کرنے والی خواتین کو روڈ
پر گھسیٹا گیا، تہذیب داغ دار ہوئی ،
اخلاقی تقاضوں کی دہجیاں اڑا دی گئی اور میرے
وطن کی ماں بہنوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا،
ان کے دوپٹے اتارے گئے ،
جانوروں کی طرح انہیں پولیس کی گاڑیوں میں اٹھا
اٹھاکر پھینکا گیا ،
وہ چیختی چلاتی رہی ،وہ خوشی میں نہیں بلکہ غم
میں گھر سے باہر نکلی تھیں،
اپنوں کو کھو دینے کا غم کیا ہوتاہے یہ ان بلوچ خواتین اور ان معصوم بچوں سے بڑھ کر بھلا کون جان سکتاہے؟
کبھی کبھی یوں محسوس ہوتاہےکہ اس ملک میں صرف
جنگل کا قانون ہے جو طاقتور ہے وہ کمزور انسانوں کو دبوچ رہاہے کھارہاہے،
نہ یہاں مظلوم کو انصاف مل رہاہے،
قانون صرف طاقتور کی پاسداری کے جوتے پالش کرتا
دیکھائی دیتاہے ،
کوئی نظام نہیں کوئی ریت روایات نہیں ،
بس ایک بے حس معاشرہ ہے جس کا ہم سب ہجوم کی
صورت میں حصہ ہیں۔
حق کو جانتے ہوئے بھی کوئی کی حق کی بات
نہیں کررہاہے ،
صرف اور صرف لاقانونیت کا دورہ دور ہے،
سندھ حکومت اور خاص طور پر پاکستان پیپلزپارٹی
کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہیے،
آخر پر امن احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کرنا اور اس تذلیل سے گرفتار کرنے کی کیا وجہ تھی،
کیا یہ لوگ ہمارے نہیں ان کےحقوق نہیں ان کی تہذیب نہیں ان کی تاریخ نہیں انکی روایات نہیں سب کچھ ہے
ان کے پاس بس
یہ مظلوم ہے طاقتور نہیں بے سہار ا ہیں انکا کوئی سہارا نہیں ۔
ہمیں اپنے رویے بدلنے کی ضرورت ہے قانون سب پر ڈنڈے برسا کر اگر یہ سمجھا جارہاہے کہ یہ سب خاموشی سے سہتے رہے گے
تو یہ انکی بھول ہے خدارا اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں
اس سماج کو یہ رویہ دیمک کی طرح کھارہاہے
کہیں ایسا نہ ہو یہ دیمک ہم سب کو چاٹ کررہ جائے اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخون لیے۔