ادب کے غلاظت بھرے ہجوم میں جب کوئی
عورت تخلیق کار کے طور پر آگےبڑھتی ہے تو مردوں کی بھیڑ گدھ بن جاتی ہے۔
ہر
کوئی اسے اپنے پروں سے اڑانا چاہتا ہے۔ یہ سطحی،کم ظرف اور اندر سے خالی لوگ اول
تو ذہین عورت کو قبول نہیں کرتے۔
کربھی لیں تو اپنی شرطوں پر۔ یہاں عورت کا قدم
جمانا بہت مشکل ہے۔
کبھی
کبھار ناممکن۔ انہیں وہ ذہین عورت پسند ہے جو ایک قدم ان کے پیچھے رہ کر انہیں
“استادی” کا درجہ اول دےان کی چھاؤں چھتر میں رہنے کا د م بھرے۔
ان
کا دل بہلائے، نفسیاتی کجیوں کی داد رسی کرے۔
جو عورت ایسا نہیں کرتی یہ اس کے
باجماعت دشمن بن جاتے ہیں۔ کچھ کندھ ذہن حسین عورتیں ان کی پہنچ میں شہرت کمانے
لگتی ہیں ۔
اور
پھر یہ اپنے ساتھ ایسی عورتوں کو بھی ملالیتے ہیں تاکہ جنت کا نشہ بھی ہاتھ سے نہ
جائے اورجہنم کی آگ بھی سینکتے رہیں۔
مگر کچھ کو یہ جان بوجھ کر برباد
کرتے ہیں۔ ان کا دماغ خراب کرتے ہیں۔
شہہ دیتے ہیں۔ دوستی کا ناٹک کرکے
اپنی بیویوں کے پہلو میں چھپ کر زبانی کلامی دوستیاں کرتے ہیں۔
انہیں بگاڑنے کے لئے اپنی ناکام
حسرتوں کا منجن بیچتے ہیں۔ بولڈ،بلنٹ، خوب صورت،تمہارے جیساکوئی نہیں۔ تم ہی تم
ہو۔
فلاں ،ڈھمکاں ،بکواس ۔۔
یہ ادبی گدھ کھاجاتے ہیں ایسی عورت
کو۔ یہ شکاری اپنا جال پھینکتے ہیں۔
اعلانیہ تعریف و توصیف سے گریزاں اور ان بکس میں
گھس کر زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے۔
یہ ہوتےہیں خودکشی کی وجہ۔
آج میرے اندر سیمیں درانی کا وہ غم
سر چڑھ کر بول رہا ہے جو وہ کب سے اپنے وجود پر لادے پھررہی تھی۔
اس
نے اپنے آپ کو عورتوں سے بچالیا۔
مگر یہ گدھ مار گئے اسے۔ جان لینے
پر مجبور کردیا اپنی۔
ایسی بہت سی عورتیں ہیں۔ کسی نہ کسی
وجہ سےستائی ہوئیں ۔
یہ اپنی شکار گاہ میں لاتے ہیں اسے۔ تماشا کرتے ہیں اور موت پر تالیاں بجاتے ہیں۔
میں نے خود کبھی ان شکاری گدھوں کو منہ لگایا ہے کبھی اور نہ ہی کسی بھی تخلیق کار عورت کے اندر یہ کمزوری دیکھنا چاہتی ہوں کہ وہ مردوں کے کاندھے پر سوار ہوکر آگے بڑھے۔
تخلیق میں قوت ہوگی تو زمین کو آسمان کردے گی
مگر اپنے آپ کو اس ہجوم کے حوالے مت کیجئے۔ یہ چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اتنے پتھر
مارتا ہے کہ موت آسان لگنے لگتی ہے۔