ماہ پارہ صفدر Mahpara Safdar
وقت اک پل کو ٹھہر جا تو یہ احساں تیرا
چند یادیں میرے پہلو سے گزرنا چاہیں
یادیں وہ تاریخ ہوتی ہیں جو سینہ بہ سینہ چلتی ہے۔ اپنے ملک، اپنی زمین سے رشتے کبھی ٹوٹنے نہیں دیتیں۔ کبھی رُلاتی ہیں کبھی ہنساتی ہیں۔ گزرے موسموں کا ذکر لفظوں میں پروتے ہوئے اور کتاب کے لیے سمیٹے ہوئے آنکھیں کبھی نم ہوئیں تو کبھی چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور کبھی چیخ چیخ کر رونے کو جی چاہا۔
اس حقیقت سے انکار کہاں ممکن ہے کہ زندگی کے سفر میں جو مقام، جو رستے جو سنگِ میل، جو لمحے گزر جاتے ہیں، وہ کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ مگر وہ سب زمانے، یادیں بن کر زندگی بھر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
مجھے تو یوں لگتا ہے، جیسے میری یادیں سائے کی طرح مجھے گھیرے رکھتی ہیں۔ وہ ایسے کہ مجھے پاکستان ٹیلی ویژن پر نو بجے نشر ہونے والا خبر نامہ اور ریڈیو پاکستان کی خبریں چھوڑے ہوئے اب اتنے ماہ و سال گزر چکے ہیں کہ ان کا شمار کرتے ہوئے بھی میرا دل جیسے بیٹھ سا جاتا ہے۔ مگر اس کا کیا کیجیے کہ میری اس شناخت نے کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ کوئی دو چار دن ہی گزرتے ہوں گے کہ کوئی نہ کوئی برسوں بعد بھی یہ یاد دلا دیتا ہے ’ارے اچھا تو آپ وہی ہیں۔ ہم تو آپ کو بچپن سے دیکھ رہے ہیں۔‘ گویا ایک پوری نسل ایسی ہے جس کی بچپن کی یادوں میں مَیں زندہ ہوں۔
یقین مانیے ان میں کئی مرتبہ تو سینئر سیاستدان، وکلا اور جج صاحبان بھی شامل ہوتے ہیں۔ ایک سینئر جج تو ایک صوبے کے چیف جسٹس بننے کے بعد ریٹائر بھی ہو چکے، اللّٰہ جھوٹ نہ بلوائے تو عمرِ رواں کی کوئی ساٹھ بہاریں تو دیکھ ہی چکے ہوں گے اور جنھیں میں بھی ٹی وی کے زمانے سے جانتی ہوں، سُن اور دیکھ رہی ہوں۔ مگر انھوں نے میرا نام سنتے ہی بڑی محبّت اور اشتیاق سے کہا کہ ’مَیں تو آپ کو بچپن سے سُن رہا تھا، کیا حُسنِ اتفاق ہے آج آپ سے بات بھی ہو گئی۔‘
بی بی سی کے اپنے ایک ساتھی ہر دوسرے تیسرے دن بعد کہتے تھے کہ میں بچپن میں آپ کو دیکھا اور سُنا کرتا تھا، میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اب میں آپ کے ساتھ کام بھی کر رہا ہوں۔
موصوف خود بھی کم از کم پچاس کے پیٹے میں تھے، خیر سے دادا بھی بن چکے تھے، آخر کار ایک دن میں نے جل کر کہہ ہی ڈالا، ’میرے خیال میں تو آپ اب بھی اپنے بچپن ہی سے گزر رہے ہیں۔‘
یہاں تک کہ ہمارے ایک سینئر ساتھی عارف وقار نے یہ مذاق بنا لیا کہ ’ماہ پارہ صفدر! جب میں اپنی ماں کی گود میں لیٹا انگوٹھا چوس رہا ہوتا تھا اُس وقت سے آپ کا فین ہوں۔‘ میرے یہ ساتھی میری بڑی بہن فوزیہ کے کلاس فیلو بھی رہ چکے ہیں۔
کئی دفعہ میں نے دل میں سوچا بھی کہ ہم نے تو ہمیشہ مردوں کو خواتین کے بارے میں یہ کہتے سنا کہ بھئی ان عورتوں سے کبھی ان کی عمر نہ پوچھو، یہ اپنی عمر چھپاتی ہیں وغیرہ۔ مگر مجھے تو لگتا ہے کہ عمریں کم کرنے میں مرد حضرات بھی عورتوں سے کچھ کم نہیں۔
خیر یہ سب تو از راہِ مذاق تھا۔ سچ پوچھیے تو بے انتہا خوشی ہوتی ہے لوگوں کی اس یاد آوری پر۔ پی ٹی وی اور ریڈیو میں نیوز اینکر کی حیثیت میں اور زندگی کے اس ابتدائی سفر سے وابستہ بہت سی یادیں میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
میرے پاس پی ٹی وی نیوز کی کچھ بہت ہی نایاب اور تاریخی اہمیت کی فٹیج تھیں۔ جو خود پی ٹی وی کی لائبریری میں بھی موجود نہیں۔ میرے شوہر صفدر ہمدانی ریکارڈ کیا کرتے تھے، جیسے اوجڑی کیمپ کا واقعہ، غیر ملکی رہنماؤں کی پاکستان آمد کی فٹیج، جنرل ضیا کے ریفرنڈم اور مارشل لا اٹھانے کے اعلان کی ویڈیو وغیرہ۔ میں نے وہ یوٹیوب پر اپنے چینل پر پوسٹ کیں، وہ ویڈیوز ہر طرف سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں اور بہت پسند کی جا رہی ہیں۔ یہ بالکل ہماری ذاتی کاوش تھی اور مجھے خوشی ہے کہ میں ملکی تاریخ کی وہ جھلکیاں سامنے لا سکی ہوں جن کے بارے میں لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ اس سے چند برس قبل میں نے بی بی سی کی اُردو ویب سائٹ کے لیے چند بہت مختصر سے ویلاگ لکھے تھے تو لوگوں نے لکھا، یہ صرف آپ کی نہیں، ہماری بھی یادیں ہیں، ہم اگلے ویلاگ کا انتظار کرتے ہیں۔
چینل پر پوسٹ ہونے والی ویڈیوز پر کچھ نے تو کہا، ہم بار بار یہ کلپس دیکھتے ہیں اور اپنے بچپن کی یادوں میں کھو جاتے ہیں۔ ہماری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ ہم بہت جذباتی ہو جاتے ہیں۔ اپنے والدین، اپنے شہر اور گاؤں کے منظر ہماری آنکھوں کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔
ایک محترم نے لکھا میں صرف پانچ برس کا تھا۔ اس زمانے میں ہمارے گاؤں میں صرف ہمارے گھر ٹی وی سیٹ تھا اور گاؤں کے کئی لوگ خبرنامے کے وقت ہماری بیٹھک میں جمع ہو جاتے تھے، میں اپنے والد کی گود میں بیٹھا ہوتا تھا، مجھے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں مگر میں بس آپ کو دیکھ رہا ہوتا تھا۔ یہ کلپس دیکھتے ہوئے میں خود کو اپنے والد کی گود میں بیٹھا ہوا محسوس کر رہا تھا۔
لوگوں کے ایسے کمنٹس پڑھ کر میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ یہ میری زندگی کا اثاثہ ہے۔ ان محبتوں نے ٹیلی وژن سے میری وابستگی اور شناخت کو میرے لیے اعزاز میں بدل دیا۔
یہ سب پڑھ کر زیرِ نظر کتاب کو لکھنے کی مزید حوصلہ افزائی ہوئی۔ مَیں نے سوچا کہ جب مَیں آپ میں سے اکثر کی یادوں میں موجود ہوں تو کیوں نہ مَیں بھی ماہ پارہ زیدی سے ماہ پارہ صفدر تک کے دھوپ چھاؤں کے اس سفر کی کچھ یادیں آپ کے ساتھ بانٹوں۔
ویسے بھی سن 80 کا عشرہ کوئی عام سا زمانہ نہیں تھا۔
زباں و بیاں پر پہرے تھے، ریڈیو اور ٹی وی کی خبروں یا پروگراموں میں فوجی حکومت کی مدح سَرائی کے علاوہ کچھ اور کہہ دیا جائے، یہ بھلا کس کی مجال تھی۔
1977ء میں لگائے جانے والے مارشل لا کا بھیانک سایہ اہلِ پاکستان کی زندگیوں کو گھُن کی طرح چاٹ رہا تھا۔
اب قلم یہ لکھتے ہوئے شرمندگی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔
اسلام آباد میں مجھ سمیت اکثر سرکاری حلقے، عام سرکاری ملازمت پیشہ لوگ اس احساس سے بہت حد تک بظاہر عاری نظر آتے تھے۔ یوں جیسے اس کے عادی سے ہو گئے ہوں یا یوں کہہ لیجیے کہ اس مارشل لائی نظامِ حکومت سے نکل کر کہاں جاتے۔
میرا تعلّق سرکاری نشریاتی اداروں سے تھا، یعنی ریڈیو اور ٹیلی وژن، جو دن رات حکومتِ وقت کی مدح سَرائی کے سوا اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ لوگ روشن صبحوں کو تاریک شاموں میں ڈھلتے ہوئے دیکھ رہے تھے، مگر بےبسی کی داستان بنے نظر آتے تھے، جمہوریت کے خواب دیکھنے والے یا تو فوجی جنتا کے ہاتھوں کوڑے کھا رہے تھے یا پھر عقوبت خانوں میں ڈال دیے گئے تھے۔ شہر لاہور کا شاہی قلعہ بہت سی چیخوں کا گواہ ہے۔
زیرِ نظر کتاب میری زندگی کے سفر کے گرد بکھرے واقعات پر مبنی ہے جسے میں نے تین حصوں میں بانٹ دیا ہے۔
حصّہ اوّل میں، مَیں نے ساٹھ اور ستّر کے عشرے میں اپنے لڑکپن، کالج اور یونیورسٹی کے دور میں نجی اور سماجی حالات کی منظر کشی کی ہے، جب لڑکیوں کو گھروں سے نکلنے دینے اور انھیں زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کا رواج کم کم تھا، خواتین کے لیے چند مخصوص شعبے تھے، جیسے درس و تدریس یا میڈیکل لائن ڈاکٹر وغیرہ۔ ذرائع ابلاغ کو مردوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا تھا بلکہ ایک طرح سے ان کی اجارہ داری تھی اور لڑکیوں کی اس شعبے میں ملازمت کی سماجی سطح پر حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔ جس کا مجھے بھی سامنا کرنا پڑا۔
ملازمت کی خواہشمند لڑکیوں کے لیے منظرنامہ کچھ یوں تھا...
دیوار ملے گی تو کہیں خار ملیں گے
منزل کے سب ہی راستے دشوار ملیں گے
کتاب کا دوسرا حصّہ ستر اور اَسّی کے عشرے میں رونما ہونے والے ایسے غیر معمولی واقعات پر مشتمل ہے جو کتاب لکھنے کے محرّک بنے، جو میرے سامنے رونما ہوتے رہے اور کچھ واقعات کا میں خود بھی حصّہ رہی۔
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ میں نے پاکستان کا وہ دَور بہت قریب سے دیکھا جسے تاریخ کا سیاہ ترین دَور کہا جاتا ہے۔ اس پُر آلام دَور یعنی جنرل ضیا کے مارشل لا لگنے کی خبر پانچ جولائی سن ستتر کی صبح ریڈیو پاکستان کے چھے بجے کے بلیٹن میں نشر ہو چکی تھی۔ دن گزرنے کے بعد لاہور ٹیلی ویژن سے یہ خبر میں نے پڑھی تھی جبکہ شب بارہ بجے کرفیو لگنے کی خبر بھی میں نے ہی پڑھی، جس میں اپنے ہی شہریوں کو میں نے بتایا کہ خبردار کسی نے بھی کرفیو کی خلاف ورزی کی تو اسے دیکھتے ہی گولی مار دی جائے گی۔
گویا ملک میں جس خوف و دہشت کے سائے پھیلنے والے تھے، اس کا اعلان میری آواز میں ہوا۔
ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبر میں نے پاکستان ٹیلی وژن کے نو بجے کے خبرنامے میں پڑھی، یہ ایک ایسی خبر تھی جو ملک کی تاریخ رقم کر رہی تھی۔ عجب سراسیمگی کا ماحول تھا اور نیوز اینکرز کو بار بار ہدایات دی جارہی تھیں کہ کہیں کوئی نیوز اینکر خبر پڑھتے ہوئے رو نہ پڑے۔ جنرل ضیا کی ہوائی حادثے میں موت کی خبر نیوز رُوم میں موجود ہونے کے باوجود میں نہیں پڑھ سکی۔ کیونکہ ایڈیٹر صاحب کا حکم تھا کہ یہ خبر کسی مرد کو پڑھنی چاہیے۔ گو کہ لوگ جنرل صاحب کی تدفین کے وقت شدّتِ جذبات میں اظہر لودھی کا زار و قطار رونا آج تک نہیں بھولے۔ لیکن کوئی خاتون اینکر رو پڑتی تو وہ اس کی بہت بڑی کمزوری ہوتی، صنفی امتیاز کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی تھی۔
اور پھر یہ وہی زمانہ تھا جب افغان جہاد ہو رہا تھا۔
پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا بھیانک باب رقم ہو رہا تھا، جس کے اثرات ملک آج بھی بھگت رہا ہے۔ دوست احباب کا بہت اصرار تھا کہ مَیں اس تاریک دور کو سامنے لاؤں کہ اُس دور میں میڈیا پر کیا گزر رہی تھی۔
کتاب کا آخری اور تیسرا حصّہ ایک میڈیا کارکن کی حیثیت سے لندن میں میرے صحافتی مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہے۔
بی بی سی اُردو نشریات سے وابستگی کے بعد لندن میں اپنے قیام کے دوران ایشیائی خواتین پر ایک خصوصی پروگرام کی تیّاری کے سلسلے میں برطانیہ کے بہت سے دوسرے ایسے شہروں میں گئی، جہاں ایشیائی خصوصاً پاکستان سے آنے والے تارکینِ وطن بہت بڑی تعداد میں کئی کئی عشروں سے آباد ہیں۔ ان سے مل کر یہ جاننے کا موقع ملا کہ وطن سے نکلنے کے بعد ملازمتوں کے حصول یا ایک مختلف معاشرے میں اپنی شنا خت برقرار رکھتے ہوئے انھیں کس قسم کے مسائل کا سامنا رہا۔ بہت سے پاکستانی خاندانوں میں شادی کے لیے ملک سے لائی جانے والی لڑکیوں کی حالتِ زار کا علم ہوا، جو میرے لیے بہت ہی حیرت انگیز اور افسوس ناک انکشاف تھا۔ شاید ایسے واقعات کتاب کے ان قارئین کے لیے بھی انکشاف ہوں جن کے لیے دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ لوگ برطانیہ کی جنّت میں رہتے ہیں۔
بلوچستان پر پروگراموں کی ایک سیریز کی تیّاری کے لیے اس دُور افتادہ اور پس ماندہ صوبے کے مختلف شہروں گوادر، تربت، سبی، ژوب، قائد اعظم کی آخری قیام گاہ زیارت کے علاوہ میں ڈیرہ بگٹی بھی گئی۔ یہ بہت ہی دلچسپ اور حیرانیوں سے بھرپور ایک سفر تھا، جس کے دوران صوبے کے نواب اکبر بگٹی، نواب عطاء اللّٰہ مینگل، نواب خیر بخش مری جیسی اہم شخصیات کے علاوہ ہر شعبۂ زندگی سے تعلّق رکھنے والے مرد و خواتین سے مل کر بہت کچھ جاننے اور قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
برطانیہ میں قیام کے دوران دُنیا کے متعدد ملکوں میں سیر و سیاحت کی غرض سے جبکہ آئر لینڈ اور ایران رپورٹنگ کے سلسلے میں جانا ہوا۔ ایران میں اپنے مشاہدات کو بھی میں نے سپردِ قلم کیا ہے۔
آپ یہ ضرور سوچیں گے کہ باسی کڑھی میں ابال کہاں سے آ گیا۔ اور آپ کا یہ سوچنا کچھ غلط بھی نہیں۔ سن نوے میں بی بی سی کی عالمی سروس سے منسلک ہونے کے بعد زندگی کا پہیہ اتنی برق رفتاری سے آگے بڑھتا رہا کہ راہ کے بہت سے موڑ گُم اور بہت سے پیچھے رہ گئے تھے۔
مگر ہوا یوں کہ ایک دن ہم سیربین کی ٹیم بی بی سی بش ہاؤس کی کینٹین میں کھانے کے دوران گپ شپ کر رہے تھے۔ ہمارے ساتھ اُردو سروس کے نئے ایڈیٹر عامر احمد خان بھی تھے جو حال ہی میں پاکستان سے آئے تھے۔ وہ کبھی کبھی کھانے اور گپ شپ میں شامل ہو جاتے تھے۔ سینئر صحافی تھے اور اُردو سروس میں آنے سے قبل انگلش اور اُردو صحافت کا طویل تجربہ رکھتے تھے۔ باتوں باتوں میں مجھ سے کہنے لگے ”میں جب لندن آ رہا تھا تو بہت سے لوگوں نے مجھ سے آپ کا بہت ذکر کیا، لوگ اب بھی آپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔“ اور پھر اسی گفتگو کے دوران انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں اُردو سروس کی ویب سائٹ کے لیے ٹی وی سے وابستہ اپنی یادیں مرتّب کروں۔ دل میں خواہش تھی مگر اِس کے باوجود میں فوری طور پر ہاں نہیں کر سکی۔ یہ سوچ کر متذبذب تھی کہ زندگی کا یہ موڑ تو برسوں پیچھے رہ گیا تھا۔ اب تو یادیں بھی دھندلا سی گئی تھیں۔ عامر احمد خان بعد میں بھی یادیں ضبطِ تحریر میں لانے کے لیے اصرار کرتے رہے۔
مگر جب لکھنے بیٹھی تو مجھے یوں لگا، بس فصیلِ وقت کا در کھولنے کی دیر تھی کہ بیتے موسم سامنے آ کھڑے ہوئے اور پھر تو یقین کیجیے یادوں کا اتنا خزانہ ہاتھ لگا کہ اسے کوزے میں بند کرنا مشکل ہو گیا۔ لگتا ہے سارے گزرے ہوئے منظر دل کے کسی نہاں خانے میں دبکے پڑے تھے۔
وہ علامہ اقبال کا ایک بولتا ہوا شعر ہے نا...
ہاں دکھا دے اے تصوّر پھر وہ صبح و شام تُو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو
تصوّارت میں جھانکا تو لمحے زندہ ہوتے چلے گئے، یہ کتاب ایسے ہی زندہ لمحوں کا نہ صرف عکس بلکہ ایک تاریخ ہے۔ میری کوشش ہو گی کہ اُردو میں اشاعت کے بعد یہ انگریزی زبان میں بھی جلد از جلد دستیاب ہو سکے۔
یہاں ایک وضاحت کرتی چلوں کہ مَیں آپ کے سامنے ملک کی یا مارشل لا کی کوئی تاریخ بیان نہیں کر رہی۔ ایسی تو شاید بہت سی کتابیں پہلے سے موجود ہیں۔ میں میڈیا سے متعلّق ایک کارکن کی حیثیت سے صرف ذاتی مشاہدات اور تجربات کی بات کروں گی۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ زندگی کی ریل گاڑی میں بیٹھ کر ابتدائے سفر سے لے کر اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے طویل منظر نامے کے دھوپ چھاؤں کو سمیٹنے کوشش کی ہے۔
گو کہ اُن بیتے شب و روز اور اِس کتاب کے درمیان برسوں کے سمندر حائل ہو چکے مگر بقول احمد ندیم قاسمی...
یوں تو حائل میرے رستے میں سمندر کتنے
چند یادوں کے سفینے ہیں سلامت اب تک