دل والے دلہنيا لے جائیں گےکے ڈائیلاگ رائٹر کی شادی کیسے ہوئی
یہ ایک دلچسپ کہانی ہے جو معاشی بدحالی کے باجود انسیت کے رشتوں سے جڑی ہوئی ہے۔
جس میں خون کے رشتے نہ ہوتے ہوئے بھی لوگ ایک دوسرے کا خیال ان رشتوں سے بڑھ کر کیا کرتے تھے۔
اردو ادب میں سلطانہ جعفری کا نام کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ۔
ہندوستان میں انہیں تمام ادبی شخصیات بہتر انداز میں جانتی اور پہنچانتی ہیں۔
شادی زندگی کا ایک ایسا موڑ ہے جس میں پسند کے بعد سب سے بڑی اور اہم چیز آپ کے مالی حالات ہے جو ان دونوں کےرشتوں کی گاڑی کے پہیوں کو کھینچ کر آگے چلاتے ہیں۔
سلطانہ جعفری کا ایک مضمون ہے مغرے کی بالیوں والی جو بہت مشہورہے۔ جاوید صدیقی کہتے ہیں کہ یہ وہ زمانہ تھا کہ ہمارے پاس کرنے کوئی کام نہیں تھا کسی دوست یا جاننے والے کو کہاکہ یار کوئی کام ہی دلوا دو تو ایک صاحب ہمیں سلطانہ جعفری جنہیں ہم سلطانہ آپا کہہ کر پکارتے تھے انکے پاس لے گئے
۔ سلطانہ آپا سے ملاقات ہوئی انہوں نے روس کے مضامین کا ترجمہ کرنے کو کہاکہ جو انگریزی سے اردو میں ہوا کرتے تھے۔
اس طرح ہمیں کرنے کو کام ملا اور ہم کام کرتے رہتے تھے۔
سلطانہ آپا کی یوں تو ان گنت خوبیاں تھی لیکن وہ ہم سے ایسے ہی ملا کرتی تھی ۔
جیسے وہ سچی میں ہماری سگی اور بڑی بہن ہو۔ اسی طرح ہماری ہرچیز کا خیال رکھا کرتی تھی۔
فریدہ سے شادی کرانے میں انکا بڑا ہاتھ ہے۔
آپ کو شاید اس بات کا یقین نہ آئے۔ایک دن سلطانہ آپا نے مجھ سے کہا کہ تم ایسا کرو کہ فریدہ سے شادی کرلو اور کہاکہ وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔
میں نے کہاکہ آپا نہ میرے پاس گھر ہے نہ میرے پاس مستقل آمدنی کا کوئی ذریعہ سو روپے ڈیڑھ سو روپے کماتاہوں کیا کھلائو گا کہاں رہائونگا انہیں آفس کی ٹیبل پر تو سلا نہیں سکتاتھا۔
انہوں نے پوچھا اچھا مسئلہ بتائو کیاہے؟ میں نےکہاکہ آپ رہنے کو گھر نہیں انہوں نے کہاکہ گھر کرائے پر لے لو ۔ آپا شادی کےلیے چار زیور چار کپڑوں کی ضرورت رہتی ہے میں کہاں سے لائوگا وہ میری آمدنی اتنی نہیں ہے۔
انہوں نے مجھے کہاکہ جائو بینک سے چیک کرکے آئو کہ میرے اکائونٹ میں کتنے پیسے ہیں میں گیا بینک، انکے اکائونٹ کی معلومات لیکر آیا پتا لگا کہ انکے اکائونٹ میں آٹھ سے روپے پڑے ہیں، انہیں آکر بتایا ۔
انہوں نے سات سو کا چیک بناکر میرے ہاتھ پر رکھ دیا اور کہاکہ ایک سو روپے اس لیے چھوڑ رہی ہوں کہیں کھاتہ نہ بند ہوجائے
۔اس طرح ساڑھے پانچ سو سونا تولہ ہوتا تھا ہم نے زیور بنا ڈالا ۔
اس طرح اتفاق سے گھر بھی مل گیا ۔ایک دن انکا فون آیا کہ تمھاری شادی کےلیے ہال بھی بک کرالیا ہے۔
تمھارا ریسپشن دس فروری کو ہوگا۔میں نے کہاکہ آپا آپ تو ہتھیلی پر سرسوں جماتی ہے۔
جتنے کامریڈ ہے وہ تمھاری مدد کرینگے ، پھر کیا ہوا ایک صاحب نے لاکر کپڑا دے دیا ایک نے سلوادیئے اور ایک نے شادی کی دعوت کا انتظام کردیا۔
اس طرح چندے میں ہماری شادی ہوگئی۔
جو ہوا اچھا ہو ااسکا نتیجہ بہت اچھاہوا بیوی بہت اچھی ملی جس نے آج تک بہت ساتھ دیاہے۔اس طرح ہماری شادی ہوگئی۔