نیویارک، حسن مجتبیٰ
وہ دسمبر 1971 کے ان دنوں لاڑکانہ کے کچے میں سور کے شکار پر تھا،
جب ذوالفقار علی بھٹو نے باقاعدہ
پاکستان کا اقتدار سنبھالا تھا۔
اور اسے کچے کے جنگلات میں ہی
پیغام ملا تھا کہ اسے سندہ کا گورنر بنایا گیا ہے
اور وہ کچے سے سیدھا سندہ کی راجدھانی کراچی آیا
اور اس وقت سندہ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس
طفیل علی عبدالرحمان (شیری رحمان کے چچا
کے ہاتھوں سندہ گورنر ہائوس میں حلف اٹھا رہا تھا۔
ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے اس دور کے رشتہ دار کو اپنا
“ٹیلینٹیڈ کزن” قرار دیا تھا۔
ممتاز علی بھٹو اگرچہ تھا تو لنکنس ان سے بار ایٹ لا ،لیکن اسکی شہرت
لاڑکانہ اور کچے کے نواب اور دبنگ وڈیرے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھی،
تب تک جب تک ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی
پاکستان پیپلزپارٹی نہیں بنائی تھی
اور یہ سابقہ مغربی پاکستان سے
قومی اسمبلی کا رکن ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی کی لاہور میں
ڈاکٹر(انجنیئرنگ ڈاکٹر) مبشر حسن کی رہائشگاہ پر بننےوالی پاکستان پیپلزپارٹی
میں شامل ہونیوالے اوائلی بنیادی اراکین میں سے تھا ،
اور ذوالفقار علی بھٹو کیساتھ 1968 میں بدنام زمانہ ڈی پی آر (ڈیفینس آف
پاکستان رولز ) کے تحت جیل بھی گیا تھا۔
یہ پہلی دفعہ تھا کہ بھٹو
اسٹبلشمینٹ کے مخالف ہو رہے تھے۔
وگرنہ بھٹو ہمیشہ چڑہتے سورج کے پوجاری اور انگریز کے آزمائے ہوئے وفادار سندھی
وڈیرے رہےتھے۔
ممتاز علی بھٹو کا والد نواب نبی
بخش بھٹو اور چچا واحد بخش بھٹو انگریز راج میں بمبئی لیجلسلٹو کائونسل اور اسمبلی
کے شروعاتی ممبروں میں سے رہے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا انگریزوں کا خطاب یافتہ والد سر شاہنواز بھٹو بھی
بمبئی لیجسلٹو اسمبلی میں ممبر رہا اور بعد میں وہ جھوناگڑہ کے نواب کی ریاست کا
دیوان اعظم اور وزیر اعظم بھی رہا تھا۔
اور انگریزوں نے اس صلے مںیں
بھٹوئوں کو جائز اور ناجائز ہزاروں ایکڑ رقبوں سے نوازا تھا جو آج بھی انکی
جاگیریں ہیں۔ لاڑکانہ سے لیکر جیکب آباد کے اضلاع تک۔
تو اس سے قبل ممتاز بھٹو کی شہرت منفی اور مثبت اپنی ہی جاگیرداری کے اثر
والے علاقے جس میں سندہ کے سرکاری جنگلات کی قبضہ شدہ اراضی بھی شامل ہے تک ہی
تھی۔
خاص طور لاڑکانہ اور کچے کے وڈیرے
کے طور پر۔ اسی زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو کے ایک جیالے وکیل اور لاڑکانہ سے بعد
میں وزیر کی بیٹی کے اغوا میں بھی اسکا نام آیا تھا۔
ممتاز علی بھٹو آکسفورڈ والے دنوں میں ذوالفقارعلی بھٹو کیساتھ ہی آگے
پیچھے انہی سالوں میں آکسفورڈ میں پڑہا تھا اور کچھ وقت وہ ایک ہی اپارٹمنٹ میں
بھی ساتھ رہے تھے۔
ایک دفعہ ممتاز علی بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو کیساتھ لندن میں اپنے انہی
دنوں کے بارے میں بتایا تھا ،
کہ جب وہ لوگ زیادہ تر اپنا فارغ وقت اور پئسہ پارٹیوں میں صرف کرتے تھے
ذوالفقار علی بھٹو اپنے پیسے کتابوں پر خرچ کرتا تھا اور انکے برعکس شاہ خرچ نہیں
تھا بلکہ چھٹیوں میں پئسے بچا کر اپنی پسندیدہ شخصیات سے ملنے جاتا تھا جن میں
برٹرینڈ رسل بھی شامل تھے۔
ممتاز بھٹو کراچی کلفٹن میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی اس طرف اپنے بنگلے کی لان میں ہلکی سردیوں کی اس شام اپنے اس انٹرویو میں ذوالفقار علی بھٹو کے متعلق اپنی یادداشتیں شیئر کر رہا تھا اور سورج کب کا سندھو ساگر میں ڈوب چکا تھا۔
سیون اپ کی خالی بوتلوں کی گردنوں پر مچھروں سے بچنے کیلے انہوں نے گلوب یا
جیلیبیاں جلوائیں تھیں۔
مجھے یاد آیا اسی طرح سندہ کے دیہات اور کچے میں مچھروں سے بچنے کو لوگ
اوپلوں کی دھونی جلایا کرتے ہیں۔ ممتاز بھٹو بیریسٹر اور پڑہا لکھا ہوتے ہوئے بھی
اپنی زبان، لہجے، اور اطوار میں ایک کچے کا وڈیرہ، شمالی سندہ کے تز اور نج سندھی
لہجے اور حس مزاح، یادداشت، اور غصہ والا اور اپنا حساب نہ چھوڑنے والا اور ایک
مشاق شکاری تھا۔
مختلف ال اعلی نسل کے کتوں کا
انتہائی شوقین اور ہاتھ سے سوئر کے شکار کا ملکوں ملک مشہور شکاری۔
سوئر کے ہاتھ سے یعنی برچھی لیے
ایسے شکار کرنیوالے کو سندھی میں “ڈپھیر” کہا جاتا ہے۔
وہ مجھے بتا رہا تھا “ذوالفقار علی بھٹو شکاری نہیں تھا نہ اسے شکار کرنا آتا تھا
لیکن وہ ہماری دیکھا دیکھی میں شکاری ہو گیا تھا۔
پر وہ ہتھیاروں کا ایک بہترین
ذخیرہ رکھتا تھا۔ “ پھر وہ ذوالفقارعلی بھٹو کی خوش لباسی پر بات کرنے لگا۔ بل
اینڈ ٹرن کی قمیصیں، اطالوی بڑہیا
جوتے اور کراچی کے حمید ٹیلرز کے سوٹ۔ کہنے لگا “ وہ عورتوں کیلئیے انکی
آنکھیں تھا یا عورتیں اس کیلیے آنکھیں تھیں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا”۔
وہ مجھے بتا رہا تھا ایک دفعہ لندن کی سردیوں میں ذوالفقار علی بھٹو رات
دیر گئے اپنے فلیٹ پہنچا تھا اور چابی بھول گیا تھا۔
اور وہ ان کی نیند خراب کرنا نہیں
چاہتا تھا اسی لئیے دیواریں پھلاند کر کر وہ کھڑکی سے چپ چاپ فلیٹ میں داخل ہوا
تھا۔
لیکن مجھے ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی بیگم شیریں امیر بیگم نے بتایا تھا کہ
ممتاز بھٹو انکا قریبی نہیں دور کا رشتہ دار تھا۔
المرتضی لاڑکانہ میں بھٹو خاندان کی ذاتی رہائش والا حصہ تک اس نے بھی نہیں
دیکھا تھا۔
مگر اس حصے میں تین اشخاص کو شب بسری کے مواقع مل چکے تھے۔
ایک یاسر عرفات، دوسری شہزادی اشرف
پہلوی اور تیسرا غلام مصطفی کھر۔ شہزادی اشرف پہلوی تو ذوالفقار علی بھٹو کی خوابگاہ
یا بیڈ روم میں سوئی تھیں جبکہ ذوالفقار علی بھٹو اس رات اجرک اوڑہ کر بچوں کے
کمرے میں سویا تھا۔
مجھے یہ بات ذوالفقار
علی بھٹو کے چہیتے ذاتی ملازم عثمان سومرو عرف فلیشمین نے بتائی تھیں۔
بہرحال ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اس “ٹیلینٹیڈ کزن” کو پہلے سندہ کا گورنر
اور پھر وزیر اعلی اسوقت چنوایا جب وہ خود شکست خوردہ اور باقاعدہ پاکستان کا صدر
اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا جو کہ خود بہت بڑا تاریخی سوالیہ نشان تھا۔
آپ میں سے کچھ لوگوں کو یاد ہوگا
کہ جب ابھی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہیں بنا تھا تو ذوالفقارعلی بھٹو یحیٰی خان
کی طرف سے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ ہوکر بھی چین کے دورے کو روانہ ہوا تھا۔
عبوری وزیر اعظم نور الامین کو بنایا گیا تھا جسکی پارٹی سمیت سات جماعتی اتحاد کو
تب “سیون اپ” کہا جاتا تھا۔
تو باقی ملک کی طرح سندہ میں بھی بیچینی عروج پر تھی۔ ملک ٹوٹ چکا تھا۔
اپوزیشن زبردست طریقے خود کو منظم
کر رہی تھی۔ اندازہ کریں کہ نشتر پارک کراچی میں نیشنل عوامی پارٹی یا نعپ کا
کنونشن منعقد ہوا تھا جس میں خان عبدالغفار خان باچا خان اور شیخ عبدالمجید سندھی
جیسے رہنما شریک ہوئے تھے۔
جی۔ ایم سید کی سندہ متحدہ محاذ پر
سے پابندی اٹھائی ہی گئی تھی لیکن وہ تا حال اپنے گائوں سن میں نظربند تھے۔
سندھی اور بلوچ قومپرست خود کو
منظم کر رہے تھے۔
جیلیں ابتک سیاسی قیدیوں سے بھری
ہوئی تھیں۔ سندہ یونیورسٹی کا وائیس چانسلر تک غلام مصطفی شاہ گھر پر نظربند تھا
جبکہ سندہ یونیورسٹی اور لیاقت میڈیکل کالج کے اساتذہ اور طلبہ رہنما یحیی خان
حکومت کے ہاتھوں گرفتار پروفیسر غلام علی الانہ، ارجن لال، اور یوسف جکھرانی ، نند
لال وریانی ، زاہد مخدوم اور ایئر فورس کا کورٹ مارشل ہوکر سابق پائیلٹ انور
پیرزادو، سندھی زبان کا سب سے بڑا شاعر شیخ ایاز اور ادیب رشیدبھٹی جیلوں میں تھے جام ساقی
کو سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی کیخلاف جلوس نکالنے کے الزام میں یحی
خانی فوجی عدالت سے انکی غیر حاضری میں ملی ہوئی سزا پر عملدرآمد ذوالفقار علی
بھٹو کی حکومت میں ہو رہا تھا۔ جسپر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کا یہ فخر یہ
کارنامہ قومی اسمبلی کے فلور پر بھی گردانا تھا۔
میں انہی دنوں سے کچھ دیر بعد کراچی پہنچا تھا اور میرے محلے کے مجھ سے ذرا
بڑے بچے جو دائیں بازو کے ہنگاموں میں شریک رہے تھے ہمارے محلے پی ای سی ایچ ایس
میں تھڑوں پر بیٹھ کر شراب خانے لوٹنے اور جلانے کے قصے سینہ تان کر سناتے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی مزدور دوستی، مساوات اور سوشلزم کے تمام دعووں پر سے
اسوقت جھوٹی قلعی بری طرح ہٹی جب لانڈھی اور کورنگی کے صنعتی علاقوں میں مزدوروں
کی ہڑتال پر انتہائی وحشیانہ پولیس کاروائی ممتاز بھٹو کے حکم پر کی گئی جس میں
پولیس فائرنگ اور بربریت سے کئی مزدور ہلاک ہوئے اور کن کو جلتی کڑھائیوں اور
بھٹیوں میں زندہ جھونک دیا گیا تھا۔
ممتاز بھٹو زندگی کے آخری دنوں تک ایسے فاشی کاروائی کو اپنا اور اپنی
حکومت کا بہت ہی “فخر یہ ایکشن” بتاتا رہا تھا اور اسے اس پر کوئی ندامت نہیں تھی۔
الٹا اب ملک میں عام طور اور کراچی سمیت سندہ میں خاص طور بڑھتی بیچینی اور
سوالوں سے بچنے، جس میں انکے سابقہ مشرقی پاکستان میں خون آشام اور شرمناک
کاروائیوں میں شریک ہونے کے بعد چور دروازے سے اقتدار میں آنا بھی شامل تھا سے توجہ
ہٹانے اور اپنے اکثریتی سندھی ووٹر عوام میں جعلی “ہیروپن” دکھانے کیلیے اب وہ
فلمی ہیروپن دکھلایا گیا جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
وہ تھا سندھ اسمبلی میں سندھی زبان
کو سرکاری زبان قرار دینے کا بل جبکہ پہلے سے ہی سندھ کی دفتری زبان (سوائے ونیونٹ
والے کچھ عرصے کے) کی حیثیت سے سندھی زبان پولیس۔عدالت اور روینیو میں رائج تھی۔
لیکن ممتاز بھٹو جسکے اپنے بچے اور گھر والے ایک کو چھوڑ کر شاید ہی سندھی بولتے
ہوں اردو بولنے والے بچوں پر سندھی لازمی کا زبردستی بل تھوپنے کو سندہ اسمبلی میں
پیش کردیا۔ یہ جولائی انیس سو باہتر تھا۔
یہی جولائی کے دن تھے۔ اردو بولنے والوں پر تب سیاسی طور دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کا اثر تھا جن میں جماعت سلامی اور جمعیت علمائے پاکستان اور غیر مذہبی لیکن لسانی تنظیم نواب مظفر کی مہاجر پنجابی پٹھان متحدہ محاذ شامل تھے اور اخبار جنگ اور رئیس امروہی سمیت کی طرف سے برابر کی آگ لگائی گئی۔
ممتاز بھٹو نے یہ بل پیش کرتے ہوئے سندہ اسمبلی کے فلور پر کہا تھا “ یہ تو میرے کاندھوں پر ایک سر ہے اگر دس سر ہوں تو وہ
بھی سندہ پر قربان”۔
ایسی بڑھک پر ممتاز بھٹو “سندہ کا ڈہیسر” یعنی دس سروں والا کہلایا ۔
حالانکہ یہ کوئی نارمل انسانی شکل نہیں دس سروں والا انسان! انہوں نے آخری عمر تک “ڈہیسر” ہی کہلانا پسند کیا جو انکے مداحوں نے انپر
یہ نام رکھا تھا۔
سندہ میں سندھی مہاجر لسانی فسادات بھڑک اٹھے جسپر جلد ہی اردو بولنے والے
علاقوں میں ممتاز بھٹو کے “آہنی ہاتھ” نے قابو پالیا لیکن آج تک سندھی مہاجر یا
سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان جو سندھ میں تعصب اور نفرت کی فضا ہے یا تھی
اسکا بانی لاشک ممتاز بھٹو تھا۔
دوسری طرف “جنگ” اور رئیس امروہی
(اسکی ری سائیکلڈ نظم اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے جو دوران فساد والے پہلے
دن جنگ کے پہلے صفحے پر سیاہ،حا شیوں سے ہر طرف چھاپی گئی) ، پروفیسر شاہ فرید
الحق، ظہورالحق بھوپالی، عثمان کینیڈی، نواب مظفر، جی اے مدنی وغیرہ۔ سندھی اور
اردو بولنے والوں کو اپنی اپنی زبان کے “شہدا” مل گئے۔ دلچسپ امر ہے کہ سندھی زبان
کا پہلا شہید ایک پنجابی دوست محمد پراچہ ہے جو جی ایم سید کے جلسے پر بم حملے میں
ہلاک ہوا تھا۔
مگر یہ خونی ڈرامہ زیادہ دیر نہیں چلا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کو کراچی آکر
برنس روڈ پر اپنی کار سے نکل کر تقریر کر کے اردو بولنے والے عوام سے معافی مانگنا
پڑی اور سندھ اسمبلی میں سندھی زبان کا بل ایک ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے واپس لینے
کا اعلان کر نا پڑا۔ اپنی تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا “مجھے مہاجروں سے
کوئی پرخاش نہیں بلکہ میری اپنی بہن مہاجروں میں بیاہی ہوئی ہے”
لیکن اب پیپلز پارٹی کی اپنی ریاستی سرکاری سندھی قومپرستی تھی جسکا گھرو
گھنٹال ڈھیسر سندہ ممتاز بھٹو تھآ۔
تو پس عزیزو اب سندہ میں اس وفاقی پارٹی پاکستان پیپلزپارٹی کی ڈھیسر ممتاز
بھٹو کی سرپرستی میں
اپنی برانڈ کی سرکاری سندھی قومپرستی تھی جسکا مقصد ایک تیر سے دو شکار
تھا۔ ایک طرف سرکاری سرپرستی والی قومپرستی سے ریاست مخالف یا بھٹو مخالف سندھی
قومپرست تحریک پر کاری ضرب لگانا تھی اور دوسری طرف پی پی پی ووٹر اکثریتی سندھی
عوام میں یہ قومپرستی والا سرمہ بیچنا تھا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
اب پیپلزپارٹی والوں کا بھی سندہ میں نعرہ تھا “نعرہ بھٹو نعرہ سندہ جیئے بھٹو جیئے سندہ”۔ کہ ملک کے
باقی صوبوں میں وفاقیت والا سرمہ بیچنا تھا لیکن سندھ میں سندھی قومپرستی والا۔
اس کی ایک مثال پی پی پی کی ذیلی طلبہ تنظیم پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن سوائے
کراچی سندھ میں سپاف کہلائی جو مخف ہے سندہ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا۔ یعنی
س۔پ۔ا۔ف بنتا ہے “سپاف” ۔ممتاز علی بھٹو نے براہ راست سپاف کی سرپرستی کی۔ سپاف کو
جیئے سندہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مقابلے میں مکمل ریاستی پولیس، انتظامیہ اور بھٹو
کی گسٹاپو ایف ایس ایف یا فیڈرل سیکیورٹی فورس کی مدد سے میدان میں اتارا گیا۔
سندہ یونیورسٹی جامشورو جہاں اس سے قبل کبھی کوئی بڑی پولیس کاروائی نہیں
ہوئی تھی وہاں جیئے سندہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور سپاف کے داد گیروں یوسف جکھرانی اور
پیر منور (سابق وزیر پیر مظہر الحق کے بھائی)
کے درمیاں تو تو میں میں کے نتیجے میں
سپاف سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے دوہرے قتل انٹرنیشنل ہاسٹل میں ہوئے جس میں
یوسف جکھرانی، شاہنواز شاہ، اسرار سرکی اور عالم کھوسو کو ملوث بتایا جاتا ہے۔
قتل ہونیوالے نوجوان علی مردان شاہ
رقصم اور جان محمد کھہرو تھے اور اسی کی آڑ میں جامشورو کے تینوں کیمپسز سندھ
یونیورسٹی، انجنیئرنگ کالیج اور لیاقت میڈیکل جامشورو میں پہلی بار پولیس اور دیگر
سیکیورٹی اداروں کی مداخلت ہوئی اور بڑے پیمانے پر بیگنہہ یا حکومت مخالف طلبہ اور
انکے والدین پر کریک ڈائون کیا گیا۔ سپاف کی غنڈہ گردی کو حکومتی تحفظ اور سرپرستی
حاصل رہی۔ سندہ کے ہر تعلیمی ادارے میں سپاف کے لیڈر سندھی قومپرست طلبہ تحاریک کے
لوگوں۔ خاص طور جیئے سندہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کیخلاف پولیس و دیگر ایجینسیوں کے مخبر
بنے ہوئے تھے۔
روشن شیخ، روشن پنہور، منظور وسان، مختار سہریانی ، پیر منور، بہت سے
سرکاری گماشتوں میں سے محض چند نام ہیں جنہوں نے بھٹو حکومت مخالف طلبہ اور
کارکنوں کا جینا دوزخ کیا ہوا تھا۔ سندھی کے بڑے افسانہ نگار امرجلیل نے روشن شیخ
کی مخالف طلبہ تنظیموں والوں کیخلاف تشدد پر ایک کہانی لکھی تھی “ساں ڑو ساں ڑو
ساہ” جس میں اسکے کیریکٹر کا نام قاسم کریلو ہے۔ امر جلیل کے ایک اور افسانے “سرد
لاش جو سفر” پر ممتاز بھٹو حکومت نے یہ کہانی شایع کرنے والے “ماہنامہ سوہنی کے
مدیر طارق اشرف کے ڈیفینس آ ف پاکستان رولز کے تحت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
سپاف کے لیڈروں کی براہ رست شب و روز رسائی اسوقت کے وزیر اعلی ممتاز علی
بھٹو تک تھی۔ سپاف کے ہی کئی لیڈروں اور عام کارکنوں چاہے مخالف طلبہ تنظیموں سے
تعلق رکھنے والوں کی مکمل خرید و فروخت کرکر کئیوں کو مراعات والی نوکریوں سے
لگایا گیا۔ یوسف جکھرانی کو بھی پولیس میں ایڈیشنل ایس پی لالوکھیت یا لیاقت آباد
لگانے کی پیشکش کی گئی تھی۔
سندھی ادیبوں اور سندھی قومپرستوں کو باقائدہ منہ بند رکھنے کو کن کو عہدے
دیے گئے جو نہ مانے تو انپر ریاستی تشدد کیا گیا اور لمبی مدتوں تک جیلوں میں ڈا ل
دیا گیا۔ سندہ کے حبیب جالب عوامی شاعر ابراہیم منشی کو لمبی جیل اور ایک اور
عوامی شاعر سرویچ سجاولی کو ٹائون کمیٹی کی ایڈمنسٹریٹری دی گئی۔ ابراہیم منشی کا
بیٹا دوران جیل وفات پا گیا۔ میرے دوست اور سندھی شاعر ادل سومرو نے منشی کے قید
بند اور اسکے بیٹے کی موت پر ایک نظم لکھی تھی۔ اور لیکن منشی کو پیرول پر رہا
نہیں کیا گیا۔
ڈھیسر سندہ نے سندہ کی طلبہ تحریک میں سندہ کے حقوق کی لڑائی لڑنے
والے“سورمائوں’ میں سے ایک مسعود نورانی (ایاز لطیف پلیجو کا سسر) کو
اپنا پولیٹیکل سیکریٹری مقرر کیا۔ لیکن مخالف اور باغی سندھی ادیبوں اور طلبہ اور
سیاسی و ذاتی مخالفین کیخلاف شدید سیاسی انتقامی کاروائیاں جاری رہیں۔ اسکی دو بڑی
کریہہ تاریخی مثالیں
میرپور ماتھیلو میں زرعی اصلاحات پر صحیح عمل درآمد کے مطالبے میں ہاریوں
میں زمینوں کی الاٹمینٹ کیلے تحریک چلانے والے دو سیاسی کارکنوں اللہ بچایو مرناس
اور ماندھل شر کے اسسٹنٹ کمشنر علی شیر قریشی کی سرکوبی میں پولیس کے ہاتھوں کالے
منہ کرکر تشدد کرتے ہوئے شہر میں انکا جلوس نکالا گیا اور پھر انہیں ڈیفینس آف
پاکستان رولز کی تحت جیل میں ڈال دیا گیا۔
اشوک کمار سندہ یونیورسٹی انجنیئرنگ کالج کے الیکڑک شعبے کا ہونہار نوجوان
لیکچرر تھا۔ اسے ڈی ایس پی نیاز پیرزادو کے ہاتھوں “وائرلیس برآمد ہونے” کے الزام
میں گرفتار کر کر غائب کردیا گیا اور وہ آج دن تک غائب ہے۔ کچھ دنوں بعد
پیپلزپارٹی کے ترجمان سندھی اخبار ہلال پاکستان و دیگر اشاعتوں میں اشوک کمار کی
تصویر کیساتھ اشتہار دیا گیا کہ،وہ کوٹری پولیس لاکپ سے “فرار” ہوگیا ہے اسی طرح
ممتاز علی بھٹو نے ہی سندہ میں ریاستی گمشدگیوں کو متعار ف کروایا۔ کہتے ہیں کہ
اصل میں اشوک کمار انجنئیرنگ کالج میں سینارٹی لسٹ میں سپاف کے صدر روشن پنہور کے
لیکچرر بھائی قربان پنوہر کو “سپر سیڈ” کر رہا تھا اور اسی لیے اسے راہ سے ہٹایا
گیا۔
سیاسی مخالفین پر تشدد اور سیاسی انتقامی کاروائیاں روزمرہ کا معمول بن چکی
تھیں۔ ایس پی محمد پنجل جونیجو، شبیر کلیار، ڈپٹی کمشنر امداد اللہ انڑ، ہوم
سیکرٹری محمد خان جونیجو، وزرا جام صادق علی، عبدالوحید کٹپر، تھانیدا ملوک چنڑ،
ڈی ایس پی نیاز پیرزادو اور ایسے کئی اسکے مرکزی ولین تھے۔ ممتاز علی بھٹو انکی
ماتحت انتظامیہ اور بیوروکریسی کیلے ایک خوف دہشت کی علامت تھے۔ یا انکا انپراتنا
خوف تھا۔
ضیا الحق کی فوجی آمریت میں اشوک کمار کا کیس کھولا گیا تھا جس میں ڈی ایس
پی نیاز پیرزادو کو قید ہوئی تھی لیکن ممتاز بھٹو کا بال بیکا نہیں ہوا۔۔ نیاز
پیرزادہ جو کینیڈا آ گئے تھے کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہو گیا، کہتے ہیں بتایا کرتے
تھے کہ انہوں نے وزیر اعلی ممتاز علی بھٹو کے حکم پر اشوک کمار کو قتل کر کر اسکی
لاش گھوڑا باری کے پاس سمندر میں پھینک دی تھی۔
28 اپریل 1973 کو سندہ یونیورسٹی کے
سالانہ کنووکیشن میں جیئے سندہ کے طلبہ نے پاکستان کے انیس سو تہتر کے آئین کیخلاف
احتجاج کیا۔ اسوقت وفاقی وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کو قانون میں ڈاکٹوریٹ کی
اعزازی ڈگری دی جا رہی تھی جسپر جیئے سندہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے احتجاج کیا تھا۔
پیرزادہ اور نوجوانوں کے درمیاں تلخ کلامی کے دوران پیرزادہ کی طرف سے گالی دینے
پر جیئے سندہ کے اسماعیل وسان نے انکو تھپڑ مارا تھا۔ ہنگامہ کے دوران کنووکیشن
پنڈال میں موجود اسوقت کی گورنر رعنا لیاقت علی خان سے بھی بدتمیزی کی گئی تھی۔
، بیگم نصرت بھٹو بھی کنووکیشن کے
پنڈال میں موجود تھیں۔ لیکن وہاں موجود وزیر اعلی ممتاز بھٹو نے جب اسٹیج پر آکر
ہنگامہ کرنے والے نوجوانوں سے اپیل کی تو وہ ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔ اس ہنگامے کے دوران
ڈیوٹی پر موجود متعلقہ ایس پی دادو دل کا دورہ پڑنے وہیں فوت ہو گئے تھے۔ لیکن بعد
میں سندہ کی سیاسی تاریخ کا ایک بدترین ریاستی تشدد کنوکیشن کیس کی آڑ میں سندھی
قومپرست نوجوانوں کارکنوں اور انکے والدین اور اہل،خانہ پر کیا گیا۔
جی۔ایم۔سید کو بھی نظربند کیا گیا اور انکی نظربندی بھٹو حکومت کے خاتمے کے
بعد بھی انیس سو اسی تک رہی۔
لیکن ذوالفقار علی بھٹو خاص طور لسانی فسادات کے تناظر میں ممتاز علی بھٹو
والے “ڈھیسر سندہ” والے کیریکٹر پر خفا ہوئے تھے اور خاص طور جامشورو کنووکیشن
والے ہنگامے پر اور ممتاز بھٹو کو وزارت اعلی سے ہٹا کر وفاق میں وزیر مواصلات
بنادیا۔ انکی جگہ غلام مصطفی جتوئی نے وزیر اعلی سندہ کا عہدہ سنبھالا۔
لیکن سندہ میں سپاف کی سرپرستی پھر بھی جاری رہی اور اب سپاف کے دو دھڑے
تھے۔ ایک سپاف ممتاز بھٹو گروپ،کہلایا اور دوسرا سپاف جتوئی گروپ۔ اپنے پیشرو سے
ذرا ہٹ کر ،غلام مصطفی جتوئی نے سندھی قومپرستوں کو باقائدہ کچلنے کی کوششوں
کیساتھ اب حکمت عملی یہ اپنائی انکی طلبہ تنظیم جیئے سندہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی
قیادت کے اندر اپنے تنخواہ دار ایجنٹ پیدا کیے۔
سپاف ممتاز بھٹو گروپ کی سرپرستی کے ذریعے سندہ میں جتوئی اور اسکی حکومت
کیخلاف بہرحال کھپ چلتی رہی۔
لیکن ممتاز علی بھٹو کا عام سندھیوں میں تصور ایک سخت “مہاجر دشمن” اور “سندھی نواز” کا سا رہا۔ اپنی مواصلات و جہازرانی والی وزارت کے
دوران انہوان نے پارٹی کے لوگوں اور اپنے مداحوں کو کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم
میں اچھی خاصی ملازمتیں دیں۔ ان میں پیپلزپارٹی کے سابق رہنما پرویز علی شاہ بھی
شامل تھا۔ جو ملازم ممتاز علی بھٹو کی وزارت کے دوران زیر عتاب آئے ان میں ملک
سرور اعوان بھی شامل تھا جو پورٹ ٹرسٹ میں ملازم تھا جس نے کراچی میں بعد میں
پنجابی پٹھان اتحاد بناکر انیس سو اسی کی دہائی میں ہونیوالے لسانی فسادات میں
انتہائی منفی کردار ادا کیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کیلیے خود اسکا آبائی لاڑکانہ واٹر لو ثابت ہوا جہاں
جماعت سلامی کے امیدوار جان محمد عباسی کے تبکے ڈپٹی کمشنر خالد کھرل کی سرکوبی
میں پولیس کے ہاتھوں اغوا نے ذوالفقار علی بھٹو حکومت کی آنیوالے مہینوں میں کھٹیا
ہی کھڑی کردی۔ پنجاب میں وزیر اعلی صادق قریشی اور سندہ میں غلام م مصطفی جتوئی
شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے مصداق اگر ایسی دھاندھلیاں نہیں بھی کراتے تب بھی
بھٹو اور اسکی پارٹی جیت کر آ سکتے تھے۔
بھٹو کیخلاف دائیں بازو کی مذہبی ویگر سیاسی جماعتوں کا نو پارٹی یا نو
ستارہ اتحاد کے دوران ممتاز بھٹو پگڑی باندھے سندھ کے دورے پر آئے اورجگہ جگہ
انہوں نے عام جلسے کیے۔ انہوں نے کہا تھا “ نہیں تو پھر ہوگی دما دم مست قلندر”۔
لیکن کچھ ہی دنوں بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ ضیا الحق نے فوجی
بغاوت کے ذریعے الٹا۔ باقی سب تاریخ ہے۔ ممتاز بھٹو بھی بھٹو کی کابینہ کے ان
اراکین میں سے تھے جنکو فوج کی زیر نگرانی نظربند رکھا گیا۔ لیکن انہیں صرف بھٹو
کی پھانسی کے کچھ عرصہ قبل رہا کیا گیا۔
بھٹو کی قید اور مقدمہ کے دوران اور بعد تک وہ پاکستان پیپلزپارٹی سندہ کے
صوبائی صدر مقرر کیے گئے تھے۔ یہ زیادہ تر سپاف ممتاز بھٹو گروپ کے ہی نوجوان تھے
جو سندہ میں ضیا الحق اور بھٹو کی پھانسی کیخلاف انتہائی سرگرم ہوگئے۔ سپاف ممتاز
بھٹو میں انتہائی سرگرم اور ممتاز بھٹو کے قریبی میرا دوست اشرف میمن بینظیر بھٹو
کا پہلا سیکرٹری بنا۔ کئی لوگ الذوالفقار گروپ میں بھی گئے۔لالا اسد شیخ بھی ممتاز
بھٹو گروپ کا تھا۔ یہ جو پیپلزپارٹی کی سندہ میں نذر گاہو سمیت چالیس پچاس سال کی
عمر سے اوپر کی سیاسی لاٹ ہے انکا زیادہ تر تعلق سپاف ممتاز بھٹو گروپ سے ہے۔
ملک کی تاریخ میں منجھے ہوئے سفارتکار اقبال آخوند نے اپنی خودنوشت میں
لکھا ہے کہ ضیا الحق کو چیف آف آرمی اسٹاف کی ترقی کی سفارش ایک اردن کے شاہ حسین
اور دوسرا عبدالحفیظ پیرزادہ نے کی تھی کیونکہ انکی بیگم سعدیہ حفیظ پیرزادہ ضیا
الحق کی رشتہ دار تھی۔
لیکن بھٹو کو پھانسی کی سزا سے بچانے میں ناکامی کا الزام بہت سے عام لوگ
چاہے پیپلزپارٹی کی کئی کارکن اور لیڈر جہاں حفیظ پیرزادہ پر لگاتے ہیں وہاں ممتاز
بھٹو کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ذولفقعار علی بھٹو
پھانسی چڑہایا جا رہا تھا یہ دونوں لیڈر شادیاں رچا رہے تھے۔ ممتاز بھٹو کی ایک
سابقہ بیگم پھر بلاول،ہائوس کے سیکریٹریٹ میں بھی دفتری کام کرتی رہی تھیں۔
لیکن ممتازبھٹو تو ضیا کے مارشل لا کے اوائلی سالوں میں زیادہ تر جیلوں میں رہا۔ کراچی سینٹرل جیل میں الطاف حسین بھی ان دنوں قید تھے۔ ممتاز بھٹو بتا تے تھے کہ تب کس طرح الطاف حسین فوج اور پولیس سے ڈرتے تھے اور چیخ چیخ کر انکو آکر کہتے کہ “مجھے بچائو وہ مجھے قتل،کرنا چاہتے ہیں۔”
ایم آر ڈی کی اگست 1983 والی تحریک کے دوران انکے گھر میرپور بھٹو پر فوج
نےچھاپہ مار کر انکے اہل خانہ کو ہراساں اور ان سے بدتمیز کی تھی۔ ممتاز بھٹو کو
بھی 1985 تک نظربند رکھا گیا۔
اسکے کچھ عرصہ بعد ممتاز بھٹو خودساختہ جلاوطنی میں لندن چلے گئے ۔ یہ وہ وقت تھا جب لندن میں بینظیر بھٹو سمیت پاکستان سے کئی نامور ضیا مخالف سیاسی شخصیات اور سیاسی منحرفین جلاوطنی اختیار کیے ہوئے تھے۔ عطا اللہ مینگل، حفیظ پیرزادہ، جام صادق علی، غلام مصطفی کھر، افضل بنگش، صفدر ہمدانی، ناہید خان، صفدر عباسی ، نیّر حسین ڈار چند نام ہیں۔ یہی یا اسکے آس پاس یہی وہ دن تھے جب بینظیر بھٹو پیپلزپارٹی سے ‘انکلز’ کا صفایا کر رہی تھی۔ جتوئی، پیرزادہ، کھر اور ممتاز بھٹو ۔
بلوچ اور پٹھان قومپرستوں سے میل جیل اور انکی دوستیوں نے سندھی بلوچ پشتون فرنٹ کو جنم دیا۔ سندھی بلوچ پشتون فرنٹ کی ابتدائی بنیادی غیر رسمی ملاقاتیں تو کچھ جام صادق علی کے گھر پر بھی ہوئی تھیں ۔ آخرکار افضل بنگش، عطا اللہ مینگل اور عبدالحفیظ پیرزادہ نے باقاعدہ سندھی بلوچ پشتون فرنٹ کی بنیاد ڈالی۔ تہتر کے آئین کے ایک اہم مصنف عبدالحفیظ پیرزادہ اور ممتاز بھٹو اب پاکستان کے صوبوں کیلے وفاقی انتظام نہیں کنفیڈریشن کا بندوبست چاہتے تھے۔
اسی لئے تو ایک دفعہ قومپرست
دانشور اور بلا کے مقرر حفیظ قریشی نے عبدالحفیظ پیرزادہ،سے کہا تھا “اسماعیل وسان
نے تمہیں سندہ یونیورسٹی میں تھپڑ مارا تھا اور اگر اب وہ لڑکا تمہیں ملے تو اس کو
دو تھپڑ رسید کردینا۔ کیونکہ اب تم پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے اور
اسماعیل،وسان اب مسلم لیگ میں ہے جو تہتر کے آئین میں یقین رکھتی ہے۔
ممتاز بھٹو جب لندن میں
اختیار کی ہوئی جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئے تو ملک اور انکا آبائی صوبہ سندہ
ایک نیا منظرنامہ پیش کر رہا تھا۔ اگرچہ اب بھی ضیا الحق کی فوجی آمریت تھی لیکن
ضیا جیسے فوجی آمر کی اب حالت بقول شخصے اس ازدہا کی سی تھی جس نے بارہ سنگھا تو
نگل لیا لیکن اب جا ن کنی کا عالم تھا۔
لیکن اس کے اپنے تئیں ایک کٹھ پتلی وزیر اعظم
محمد خان جونیجو اب اسے ناکوں چنے چبوا رہا تھا۔ بینظیر بھٹو بھی اب جلاوطنی سے
واپسی ملک میں تھی اور لاہور سمیت ملک کے کونے کھدرے میں لاکھوں لوگوں کے اس کے
استقبالی جلسے جلوس تو اپنی جگہ سماجی تقریبات میں بھی اسکی شرکت ہزار وں لوگوں کو
اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ بینظیر کے علاوہ اور بھی کئی جلاوطن سیاسی لیڈر پاکستان
واپس آ رہے تھے۔ ممتاز بھٹو کے علاوہ سندھی بلوچ پشتون فرنٹ کےحفیظ پیرزادہ، افضل
بنگش وغیرہ۔
حفیظ پیرزادہ اور ممتاز
بھٹو نے بھی ملک کے عام طور اور سندہ میں خاص طور دورے کرنے شروع کیے۔ لیکن سندھی
بلوچ پشتون فرنٹ کے پیچھے جو اصل دماغ اور عرق ریزی تھی وہ افضل بنگش جیسے پرانی
جوگی کی تھی۔
پرانے بائیں بازو کے یہ پشتون رہنما جنہوں نے اس
سے قبل کسانوں میں کام کرنے کو مزدور کسان پارٹی بنائی ہوئی تھی جو ایوب خان
کیخلاف بھی تحریک میں آگے آگے تھے اور ایوب آمر کی طرف سے اعلی عہدوں کی لالچیں
اور دھمکیاں ملنے پر بھی سینہ سپر رہے تھے۔ افضل بنگش کا پشتون بائیں بازو پر نہ
فقط پاکستان میں بلکہ افغانستان میں کافی تعلقات اور اثر تھا۔ بلکہ ضیا الحق
کیخلاف انکی توسط سے بائیں بازو اور قومپرست تحریک سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی
منحرفین اور لڑاکا کار سرحد پار کر افغانستان گئے ہوئے تھے۔
کہتے ہیں حفیظ اللہ امین
کے افضل بنگش سے اتنے تعلقات تھے کہ انہوں نے انکو پیشکش کی تھی کہ انکی پاکستان
مزدور کسان پارٹی اور افغانستان میں حفیظ اللہ امین کی خلق پارٹی کے دھڑے کا آپس
میں ادغام ہو۔ جس پر افضل بنگش نے سختی سے
انکار کردیا تھا۔ لیکن افضل بنگش سخت بیمار ہوگئے تھے اورانکی لندن جلاوطنی سے
پہلے اور واپسی پر کئی بیماریوں نے انہیں گھر لیا ہوا تھا۔
جبکہ ممتاز علی بھٹو اور
حفیظ پیرزادہ سے کچھ سندھی دانشور پروفیسر عمر میمن اور لندن میں ڈاکٹر جی ایم
بھرگڑی اور خیر سگالی کی حد تک ابراہیم جویو(ابراہیم جویو نے خیر سگالی کی طور
غلام مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلزپاڑٹی کا منشور بھی لکھا تو سندھی بلوچ پشتون فرنٹ
کے منشور پر بھی قلم گھمایا) کے علاوہ بہت سے ان لوگوں
کی حمایت حاصل ہوئی، اور جو کہ وہ وڈیرے اور مڈل،کلاسی اور سابقہ بیوروکریٹس جنہوں
نے ان دونوں پیرزادہ اور ممتاز کی وزارتوں کے ادوار میں ان سے فائدے حاصل کیے یا
پھر اپنے دور کے سرگرم نوجوان اور سیاسی سندھی قومپرست ایوب دھامرا اور مشہور طالب
علم رہنما یوسف تالپور اور بعد میں گل محمد جکھرانی بھی شامل تھے۔
بھرچونڈی کے پیر سمیت کچھ پیر وڈیرے بھی آ کر ان
سے ملے جو کہ ممتاز بھٹو اور حفیظ پیرزادہ سے اپنے دیرینہ تعلقات کی بنا پر تھے۔
کچھ بلوچستان کے پشتون بیلٹ کے پشتون قومپرست بھی آکر ملے تھے۔ لیکن ممتاز بھٹو
بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں وہاں جلسے کرنے گئے جہاں پھر انکو اچھے کتے ملنے کا
بھی آسرا ہوتا۔
کئی کتوں مرغوں کے شوقین
اور ممتاز بھٹو کے پرانے برخوردار بھی ان سے آکر ملے۔ لاڑکانہ سے مٹھل مغیری اور
وڈیرہ سیال ، جیکب آباد
سےاکرم ابڑو بھی شامل،ہوئے۔شاید سپاف کے پرانے جگر جیالے احمد علی سومرو بھی ، ڈی
ایس ایف سندہ کا سابق صدر طالب لاشاری، خیرپور میرس کا اللہ ورایو سومرو، مہران
انجنیئرنگ یونیورسٹی کا پروفیسرقربان پنوھر (جسکو سینارٹی لسٹ میں غائب کیا گیا
اشوک کمار “سپر سیڈ” کرتا تھا) وکیل مظفر صادق بھٹی،اعجاز خواجہ،جنید سومرو اور
بڑے بھٹو کے دنوں سے سابق سینیٹر عبداللطیف انصاری، بدین سے نبی بخش بھرگڑی بھی
شامل ہوئے تھے۔
بلکہ یوسف تالپور ذوالفقار علی بھٹو کے دنوں کا
سابق ایم پی اے نبی بخش بھرگڑی ، میرا دوست اور تھر میں لوک دانش کا ماہر محنت کش
سماجی کارکن فقیر مقیم کنبھرشامل،تھے۔بلکہ لطیف انصاری یوسف تالپور اور اعجاز
خواجہ جیل بھی گئے تھے۔
ممتاز بھٹو نے سب سے
یکساں سماجی تعلقات اور راہ وہ رسم رکھے جس میں فقیر مقیم جیسے قلندر اور اس اونچے
پد کے وڈیرے کی دوستی بھی مثالی ہے۔ میرے دوستوں مقتول جاوید بھٹو کی بہن ڈاکٹر
فوزیہ بھٹو کے رحیم بخش جمالی کے ہاتھوں قتل، اور قتل کے بعد جاوید اور اہل خانہ
کو “صلح” پر جمالیوں کی طرف سے دھمکیوں پر ممتاز بھٹو نے برہ راست جمالیوں کے
سردار ظفراللہ جمالی کو فون کا اور کہا تھا کہ وہ اپنے جمالیوں کو روکے ورنہ جمالی
کا سندہ میں رہنا مشکل ہوجایئگا۔
جنید سومرو کی توسط سے
ممتاز نے جاوید بھٹو سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور ملنے پر اسے ہر قسم کے تعاون
اور مدد کی پیشکش اور یقین دلایا تھا۔
اور پھر جب ممتاز علی
بھٹو اور عبدالحفیظ پیرزادہ کیخلاف انکی تقاریر پر بغاوت کے مقدمات قائم ہوئے کچھ
وڈیروں نے پتلی گلی لی۔
بہرحال کئی سندھیوں کیلے
ممتاز بھٹو سے ملنا اٹھنا بیٹھنا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ کامریڈ غلام رسول سہتو
کہا کرتا تھا، “ممتاز بھٹو لوسی کتے بھی نہیں رکھتا تو لوگ لوسی کیسے رکھے گا”۔
کیونکہ ممتاز بھٹو کا تصور سندہ میں ایک “ڈاڈھے مرد” کا سا تھا۔
ویسے بھی سندھی یا برصغیر کے لوگ “ڈاڈھے مردوں”۔
سے کاندھے ا چکانا بڑا ٹیکہ سمجھتے ہیں۔ خود ممتاز بھٹو لوک دانش، مزاح، دیہاتی
نقطہ سنجی اور مطالعے کا رسیا تھا۔
شکار میں تو وانٹھوں ( جو
شکار کو گھیر گھار کر لاتے ہیں اور اہم شکاری کے معاون ہوتے ہیں) کی ہنسی مزاح اور
غیر دانستہ اور دانستہ انکے منہ سے نکلی گالیوں کا بھی برا نہیں مناتا تھا۔بلکہ
ہنس کر کہتا کہ “حرامیو، مجھے بھی نہیں بخشتے)۔ یہ تو کہیں ایک وڈیو کیے ہوئی شکار
میں ہے کہ جب انکے سوئر کے شکار کے دوران وانٹھے سور کو سیدھے منہ آتے دیکھ کر چلا
کر کہہ رہے ہیں “ مارو۔ جانے مت دینا اپنے باپ کو”۔ یہ ایسے لوگوں کی اسٹینڈرڈ
زبان ہوتی ہے آور شکار میں ممتاز بھٹو اسپورٹس مین اسپرٹ رکھتا تھا۔ سندھ کے
خوفناک وڈیروں کمار یوں، سندر خان سندرانی اور رضا محمد ڈاہری سے انکی دوستی کتوں اور
شکار کی تھی۔
لیکن جب بینظیر بھٹو فوجی
آمر کیخلاف میدان میں اتری تھی بڑے بڑے ڈاڈھے مردوں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔
خود ممتاز علی بھٹو نے، بینظیر کےاگست انیس
سوچھیاسی میں ایم آر ڈی تحریک کے دوران ستر کلفٹن سے تمام پولیس اور دیگر فورسز
اور سادہ لباس اہلکاروں کے گھیرے اور فائرنگ اور
آنسو گیس کے باوجود گھیرے توڑ کر تب پی پی پی کے گڑہ لیاری پہنچی تھی تو ممتاز
بھٹو نے اپنے با اعتماد ساتھیوں سے کہا تھا “کچھ بھی ہے بینظیر بہادر بڑی ہے۔
ہم بھی ایسی بہادری نہیں کرسکتے”۔ لیکن لوگوں کے
منہ اور دریا کے رخ کس نے روکے ہیں۔ غیر مصدقہ باتیں تو یہ بھی ہیں ممتاز بھٹو
بینظیر بھٹو سے خود شادی کا خواہشمند تھا۔ انہیں انکے مداح اور کارکن “صاحب” کہہ
کر پکارتے۔ دو مرتبہ وزیر اعلی، وفاقی وزیر ایک بار گورنر رہنے والا “صاحب” اپنے
ملنے والوں سے کہتا تھا کہ یہ پولیس کے پروٹوکول میں ہوٹر اور سائرن اقتدار سے
ہٹنے کےبعد بھی کئی دن تک خوابوں میں بجتے رہتے ہیں۔
بدین کے لوگوں کو اب بھی
یاد ہوگا جب بینظیر بھٹو پہلی بار بدین آئی تھیں تو نبی بخش بھرگڑی نے انکو
استقبالیہ کے دعوت دی تھی تو اسوقت پی پی پی کے مقامی کارکنوں نے ان سے شکایت کی
تھی کہ،وہ نبی بخش بھرگڑی کی دعوت مت قبول کریں کہ وہ اس سے پہلے حاکم علی زرداری
کی میزبانی کر چکے ہیں جب حاکم علی زرداری ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلوانے کی
مہم میں سندہ کے دورے پر نکلا تھا۔ بینظیر بھٹو نے پھر اپنے بدین کے جیالوں کی
ایسی شکایت پر نبی بخش بھرگڑی کے استقبالیہ میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔
کسے پتہ تھا پھر اسی حاکم علی زرداری کے بیٹے سے
بینظیر کا بیاہ ہوگا۔ ممتاز بھٹو نے تمام عمر آصف علی زرداری سے نہ صلح کی نہ کبھی
ان سے ملے بھی۔ بلکہ ممتاز بھٹو نے کہا تھا آصف زرداری کو وہ گڑہی خدا بخش میں دفن
کرنے بھی نہیں دیں گے کہ یہ بھٹوئوں کا آبائی قبرستان ہے۔ زرداریوں کا نہیں۔
سندھی بلوچ پشتون فرنٹ
زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکا کیونکہ ایک تو اسکے اصل سیاسی دماغ افضل بنگش 1986
میں انتقال کرگئے اور دوسرا حفیظ پیرزادہ اور ممتاز بھٹو کی زیادہ نہیں بن سکی
تیسرا عطا اللہ مینگل زیادہ،عرصے تک لندن مین قیام پذیر رہے اور تیسرا پشتون اور
بلوچ زعما کی دلچسپی خطے میں بھی ہونیوالی تبدیلیوں پر رہی۔
سندہ اور سندھی عالمی اسکیم میں دور دور تک فٹ
دکھائی نہیں دیتے تھے نہ شاید اب بھی دے رہے ۔(مئی دو ہزار ایک میں عطا اللہ
مینگل،واشنگٹن میں نام نہاد سندھی کانفرنس میں شرکت کرنے آئے تھے اور انہوں نے
اپنی تقریر میں کہا تھا “امریکیوں کو بنیاد پرستوں سے نہیں ہم سے بات کرنا پڑے
گی”۔ اس سے ایک برس قبل ممتاز بھٹو بھی واشنگٹن اسی سابقہ ورلڈ سندھی انسٹیٹیوٹ کی
کانفرنس میں مدعو تھےتھے کیونکہ اس سے کچھ سال قبل انکے ہی خط پر کانفرنس کے منتظم
منور لغاری کو امریکہ کا ویزہ جاری ہوا تھا۔ ممتاز بھٹو اپنی نوبیاہتا اہلیہ سمیت
اس کانفرنس میں شریک ہوئے تھے)۔
بینظیر بھٹو کو سیاسی
منظرنامے چاہے جسمانی طور ہٹانے یا آنیوالے انتخابات سے اسے اور اسکی پارٹی کو
روکنے کو ضیا الحق کی زندگی میں ہی کام شروع ہوچکا تھا جس کیلے سندہ میں جنوبی
ایشیا کے بدترین نسلی لسانی یعنی مہاجر پٹھان، مہاجر پنجابی پٹھان، اور سندھی
مہاجر فسادات کروائے گئے۔
اور دوسری طرف دائیں اور
بائیں بازو کی تمام پارٹیوں اور شخصیات کو ایک مختلف انواع و اقسام کے اتحادی پلیٹ
فارموں پر جمع کرنا تھا۔ سندھی قومپرست جماعتوں پر مشتمل سندھ نیشنل الائنس یا
سندہ قومی اتحاد بنا تو ان فسادات کے دوران سندھیوں کے دفاع کو تھا لیکن ضیا آلحق
کی اس میں کافی “انویسٹمنٹ ” کی ہوئی تھی۔
الاہی بخش سومرو اور یوسف ہارون، محمود ہارون کے
ذریعے جی ایم سید کو بھی رام کرلیا گیا ہوا تھا۔ سندہ قومی اتحاد کے تاسیسی اجلاس
سے قبل الاہی بخش سومرو نے جی ایم سید سے ملاقات کی تھی اور اسکے بعد سومرو جاکر
ضیا الحق سے عمر ے کے دوران سعودی عرب جا کر ملے تھے۔
قومی اتحاد کے تاسیسی اجلاس میں جی ایم سید نے
کہا تھا کہ انہوں نے اپنا سندھودیش کا پروگرام چھوڑ کر ایک دفعہ پھر پاکستان کی
حدود کے اندر حقوق کی جدوجہد کرنا قبول کی ہے اور اپنی اس بات کو انہوں نے آسمان
سے گر کر کھجور سے لٹکنے سے تعبیر کیا تھا۔
ممتاز بھٹو اور حفیظ پیرزادہ، معراج محمد خان،
جام ساقی، رسول بخش پلیجو، عبدالحمید جتوئی اسکے بیٹے سینیٹر اعجاز جتوئی اور
لیاقت جتوئی، ڈاکٹر ارباب کھہاوڑ ، لطیف ، کمیونسٹ اور کئی پارٹیاں اس سندہ قومی
اتحاد کا حصہ تھے۔
۔ اگرچہ 17 اگست 1988
کو ایک فضائی حادثے میں ایشیا کی تاریخ میں اس بدترین فوجی آمر کی موت ہونے سے
بقول بینظیر بھٹو” ہم میں سے کئیوں کے سر پر منڈلاتی موت ٹل گئی” ضیا کی موت کے
بعد انتخابات کا اعلان ہوا لیکن ٹارزن کا سفر جاری رہا۔ انتخابات کو ملتوی کرانے
اور غلام مصطفی جتوئی کو وزیر اعظم بنانے کو ستمبر 1988 کو حیدرآباد اور یکم کو
کراچی میں لسانی بنیادوں پر بدترین قتل عام ہوا۔ سندہ اب دو چند کرنل چلا رہے تھے۔
انتخابات میں ممتاز علی بھٹو اور حمیدہ کھوڑو کو
بھی لاڑکانہ سے کھڑے ہوئے لیکن حفیظ قریشی نے بھٹو بیگمات کو اتنی مغلوظات بکیں کہ
ممتاز بھٹو شکست کھا گئے۔
بینظیر بھٹو اور اسکی پارٹی بہرحال ملک کے عام
انخابات جیت گئی لیکن انہیں اقتدار حوالے کرنے میں تبتک غلام سحاق خان نے پس و پیش
کی جاری رکھی جبتک اسوقت پاکستان میں امریکہ کے متعین سفیر رابرٹ اوکلے نے اپنا
اثر رسوخ نہیں چلایا۔ لیکن پھر بھی کئی ماہ تک بینظیر بھٹو کو نہ نیوکلئیر تنصیبات
بر بریفنگ دی گئی اور نہ ہی دفاعی معاملات میں احکامات کا اختیار۔
یہ بینظیر کو اقتدار حوالے کرنے میں میں پس و
پیش اور بعد میں مداخلت کی گواہی کم از بینظیر کے تین مستند سوانح نگاروں نے بھی
دی ہے۔ پھر آپ نے دیکھا کہ رابرٹ اوکلے کو بھی سندہ میں سازشی تھیوریوں میں ملوث
کیا گیا کہ وہ ایک اچھی شہرت والے بیوروکریٹ تسنیم صدیقی کیساتھ ملکر خدا کی بستی
کوٹری میں بہاریوں کی آبادکاری چاہتا ہے۔
سندھی صحافی فقیر محمد
لاشاری اور پی پی پی کے ترجمان سندھی اخبار “ہلال پاکستان” نے اس پر انگریزی میں
ایک مشترکہ اداریہ “یو رابرٹ اوکلے” کی عنوان سے لکھا جو اخبار کے صفحہ اوّل پر
شایع ہوا۔ جسکے نتیجے میں “ہلال پاکستان” کے ایڈیٹر دستگیر بھٹی کو اپنی نوکری سے
ہاتھ دھونا پڑے۔ ظاہر ہے کہ فیک نیوز تھی۔
بہرحال ممتاز بھٹو نے
1989 میں سندہ نیشنل فرنٹ کی بنیاد رکھی اور اسکا پہلا کنونشن حیدرٓباد میں ہوا۔
انیس سو نوے میں بینظیر بھٹو کی حکومت صدر غلام اسحاق نے ختم کی)۔
انیس سو نوے میں غلام
اسحاق خان کے ہاتھوں اپنی حکومت کے خاتمے پر بینظیر بھٹو واپس اپنے بلاول ہائوس
کراچی پہنچی جہاں اس نے ایک پریس کانفرنس طلب کی۔ پریس کانفرنس شروع کرنے سے پہلے
بینظیر بھٹو نے پریس کانفرنس والے ہال میں موجود صحافی کامران خان کو ہال سے نکل
جانے کا کہا تھا۔ یہ کہتے ہوئے “ہمیں پتہ ہے آپ کو کون سا برگیڈیئر ہا،ری حکومت
کیخلاف خبریں دیا کرتا تھا”۔ پریس کانفرنس میں بینظیر بھٹو نے پہلی بار اپنی حکومت
کے خاتمے کے پیچھے براہ راست ہاتھ پاکستان کی آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلیجنس یا
ایم آئی کا بتایا۔ پارٹی تو اب شروع ہوئی تھی۔
پاکستان کی اسٹبلشمنٹ جو
کہ اصل میں ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اسکے جاسوسی محکمے ہوتے ہیں انہوں نے بینظیر کے
مقابلے میں اسکے سابق “انکلز” میدان میں اتارنے شروع کیے تھے۔
غلام مصطفی جتوئی تو پہلے ہی جیالوں کے نزدیک بھٹو فیملی ہیرو ہیرو باقی سارے زیرو
زیرو میں آ چکے تھے۔ اور ایک اور نعرہ بھی جیالے لگاتے تھے “جتوئی کھر دربدر”۔
لیکن اسٹبلشمینٹ نے اسی
ایک انکل غلام مصطفی کھر کی توسط سے بلاول ہائوس میں ملاقات کو بھیج کر بینظیر کو
تنبییہہ بھیجی تھی کہ وہ اس طرح کے “الزامات” سے احتراز کریں۔ یہ اور بات تھی کہ 2 دسمبر 1988 سے جب سے بینظیر بھٹو
اقتدار میں آئی تھی سے چھ اگست 1990ا تک اسکی حکومت کے خاتمے تک بلاول ہائوس کے
لانز پر متعین “مالی” حقیقت میں آئی ایس آئی یا ایم آئی کا کرنل تھا۔
اور دوسرا انکل جام صادق
علی آصف زرداری کے ہاتھوں تھپڑ کھا کر اب اپنی راہیں جدا کر کر سندہ کا نگران وزیر
اعلی غلام اسحاق خان کی طرف سے بنایا جا چکا تھا۔ اب سب انکلز لائین میں لگے تھے۔
غلام مصطفی جتوئی نگران وزیر اعظم جسکی نگرانی میں انیس سو نوے کے تمام انتخابات
جنرل رفاقت کے تحت چوری کرائے گئے۔ نوے کے انتخابات سندہ میں کن حلقوں مین ڈاکوئوں
سانگھڑ میں گلو مری، دادو مورو میں سلطو جتوئی اور مٹیاری میں محب شیدی کے بل بوتے
پر جیتے گئے تھے۔ دوسرا انکل پھر کچھ سالوں کے بعد ملک معراج خالد، اور نگران وزیر
اعلی ممتاز علی بھٹو۔
“ہن
بڈھیاں دی باری ہے” ملک معراج خالد اپنے بہی خواہوں سے کہتا تھا۔ لیکن ابھی ذرا
ٹھہریے۔
بینظیر کی پہلی حکومت کے
خاتمے سے کچھ دن پہلے میڈیا میں “مرتضی بھٹو کی واپسی” کی
جعلی خبریں چھوڑی گئیں۔ کہتے ہیں بینظیر کی حکومت کی برطرفی کے آپریشن کا خفیہ نام
“مرتضی بھٹو آپریشن” رکھا گیا تھا۔ جن دنوں بینظیر کی حکومت نے پکہ قلعہ آپریشن
کیا تھا جو اسکی حکومت کے خاتمے پر غلام اسحاق خان کے ٹیلیویزن خطاب میں حکومت کے
خاتمے کے اسباب میں سے ایک گنوایا گیا تھا، ان دنوں کابل پر پاکستانی فوجی کارروائی
بھی ناکام گئی تو جنرلوں نے ایک دوسرے سے کہا تھا کیا ہوا اگر ہمارے پاس کابل
نہیں۔ ہمارے پاس سندہ ہے”۔
پھر آپنے دیکھا کہ اسی
کامران خان کے ذریعے گھیر گھار کر مرتضی بھٹو کو دمشق میں جلاوطنی سے واپس لایا
گیا۔ اور باقی سب تاریخ ہے۔ کیا کامران خان کے دمشق سفر اور قیام کے اخراجات جنگ
اور نیوز گروپ نے ادا کیے ہونگے؟ مجھے شک ہے۔ کامران خان بظاہر مرتضی بھٹو کا جنگ
گروپ کے دی نیوز کیلیے انٹرویو کرنے دمشق گیا تھا اور وہ انٹرویو شایع بھی ہوا
تھا۔ یہ مرتضی بھٹو کا کسی بھی پاکستانی اخبار یا میڈیا کو دیا گیا پہلا انٹرویو
تھا جس میں اس نے جلد ہی جلاوطنی ختم کر کر واپس وطن لوٹنے کا عندیہ دیا تھا۔
آنیوالے سالوں میں ممتاز
بھٹو وطن واپسی سے لیکر آخر دم تک مرتضی اور اسکے پی بیوی بچوں کے ساتھ میں رہا۔
ایک سادہ لوح سندھیوں کا تاثر یہ بھی ہے کہ اگر ممتاز بھٹو کا ان کو ساتھ نہ ہوتا
تو زرداری مرتضٰی کے بیوی بچوں اور املاک کو کھا جاتا۔ صنم بھٹو کے قبضے شدہ پلاٹ
کے قبضہ گیروں کا پتہ جب بیلفوں کو بلاول ہائوس کا ملتا ہو تو کچھ بھی بعید نہیں۔
ممتاز بھٹو کو پھر بھٹو
ذات یا قبیلے کی سرداری کا شوق ہوا کہ اچانک بھٹو قبیلے کا سردار اور پیر بخش بھٹو
کا بیٹا واحد بخش بھٹو قتل ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ بیگم نازلی بھٹو کے اس بیٹے کے قتل
کے کھرے بھی ممتاز بھٹو کی طرف جاتے تھے۔
اب مقتول واحد بخش کی جگہ اسکے چھوٹے بھائی عامر
بھٹو کی بجائے ممتاز بھٹو سردار بن بیٹھے اور انہوں نے بھٹو قبیلے کا ،بقول اسکے
سندہ پنجاب سے۔ چودہ ہزار شرکا کا “اکٹھ” بلاکر اپنے سردار ہونے کا اعلان کیا۔ نہ
فقط وہ سردار بن بیٹھے اب ڈھیسر سندہ کے ساتھ انکے نام سے پہلے “سردار ممتاز علی
خان بھٹو” انکو کہنا اور لکھنا “لازمی” ٹھہرا۔ جو بھی سندھی اخبار اور میڈیا انکے
نام کے آگے سردار نہیں لکھتے اور کہتے انکو بزور طاقت دھونس دھمکی ممتاز علی بھٹو
کو سردار لکھنے پر “آمادہ” کیا جاتا۔
اس سلسلے میں دو مواقع پر
سندھی اخبارات “کاوش” اور “عوامی آواز “ کیخلاف ممتاز بھٹو کے نہ فقط کارکنوں اور
مداحوں نے پرتشدد کاروائیاں کیں بلکہ ممتاز بھٹو نے ایسی کاروائیوں کو درست قرار
دیا۔ واشنگٹن میں جب میں نے ان سے انکی سندھی میڈیا کیخلاف متشدد کاروائیوں کے
متعلق سوال،پوچھا تھا تو انہوں نے یہ کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کی تھی کہ
“ہاں میں نے یہ کاروائیاں کروائی ہیں”( اسوقت تک انہوں نے کاوش گروپ کی میڈیا اور
اسوقت اسکے مالک و ایڈیٹر علی قاضی کیخلاف یہ مہم کی ہوئی تھی)۔ لیکن جب انہوں نے
اخبار “عوامی آواز” پر انکی پارٹی کے کارکنوں اور مداحوں کی طرف سے حملہ اور
اخبارات کی ترسیل پر متشدد رکاوٹیں ڈلوائیں تو سندہ میں زرداری حکومت نے اخبار کے
مدیر شاید جابر خٹک کی طرف سے ایف آئی آر داخل کروانے پر ممتا بھٹو کو گرفتار کیا۔
کراچی پولیس لاڑکانہ سے
گرفتار کر کر انہیں کراچی لاکر عدالت میں پیش کیا۔ مجھے لگتا ہے اخبارات پر حملوں
سے زیادہ زرداری کو ممتاز بھٹو سے اپنا حساب چکتو کرنا تھا۔ وگرنہ اس سے قبل انکے
کارکنوں نے ممتاز بھٹو کیخلاف خبر شایع کرنے پر ڈان حیدرآباد کے نمائندے محمد حسین
خان کا سر شدید زخمی کردیا تھا۔ جس پر بھی ممتاز بھٹو نے آخر تک معذرت نہیں کی۔
انیس ترانوے کے عام
انتخابات کے نتیجے میں بینظیر بھٹو کے مرکز و صوبہ سندھ میں اپنی پارٹی کی حکومت
بنی اور وہ دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئی۔ لیکن ممتاز بھٹو اور مرتضی بھٹو اپنی
اپنی پارٹیوں کے پلیٹ فارمز پہ لاڑکانہ سے انیس سو ترانوے کے عام انتخابات میں
سندہ اسمبلی میں رکن منتخب ہو کر آئے تھے۔
یہ مرتضی بھٹو اور زرداری
بینطیر حکومت کے درمیان ایک طرح کا فری اسٹائیل دنگل تھا جو بیگم نصرت بھٹو کی
پارٹی کی چیئرمین شپ ختم کرنے سے لیکر المرتضی لاڑکانہ پر پولیس فائرنگ (جب
لاڑکانہ کا ایس ایس پی بشیر میمن تھا) مرتضی اور اسکے جیالوں کے ہاتھوں زرداری کی
زبردستی مونچھیں مونڈھے جانے کی “افواہوں” سے بھی آگے جاری رہا۔ عبداللہ شاہ کو
گلے سے پکڑنا اور کبھی نثار کھوڑو کو تھپڑ مارنا اور آخری ایکٹ میں کراچی کے ایک
تھانے سے اپنے ایک لڑاکاکارجیالے علی سنارا کو ڈیوٹی پر موجود پولیس والوں کوگالی
گلوچ کر کر چھڑوانے تک جاری رہا۔ اس پر تب پیر پاگارو نے ازراہ تفنن کہا تھا “میں
بھی اگر وزیر اعظم کا بھائی ہوں تو ایسا کروں”۔
اب یہ بات کرنی یہاں بے
مہل نہ ہوگی ادھر اسلام آباد میں صدر فاروق لغاری کے بیٹے اور بیٹے کی “وڈیوز”
بناکر فاروق لغاری کو دکھانے کی خبریں بھی آتی رہی تھیں۔ یہ اقتدار کی سیاست اور
پاکستان کی خفیہ ایجینسیوں اسٹبلشمینٹ اتنی واہیات بھی ہوسکتی ہے کہ جام صادق علی
نے اپنے دور میں آئی بی کے برگیڈیئر امتیاز بلے کی مدد سے سے ایسی ایک وڈیو
“بینظیر اور زرداری کی حق شرع” کرتے خفیہ طور تب بنوائی تھی جب وہ قید میں تھا اور
اسے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کو لایا گیا تھا۔ یعنی کہ اسلام آباد کے کوفے
میں شوہر اور۔ بیوی کو حق ازدواجیت ادا کرنے کا بھی حق نہیں۔
بہرحال قصہ المختصر مرتضی
بھٹو کو اپنے گھر کے قریب دو تلوار کے چوراہے پر بظاہر پولیس مقابلے میں قتل کردیا
گیا۔ اسوقت کے سٹی پولیس چیف شعیب سڈل نے اس آپریشن سے قبل آپریشن ٹیم کے افسروں
کوہدایات دیتے ہوئے کہا تھا مرتضی بھٹو تمہاری ٹوپی بھی سر سے اتار کر پھینک سکتا
ہے تمہیں تھپڑ بھی مار سکتا ہے لیکن تمہیں صبر سے کام لینا ہے۔ لیکن ممتاز بھٹو
کہتے تھے مرتضٰی کے قتل،سے ایک رات قبل کراچی ک منسٹہائ میں زرداری نے اپمرتضی کے
قتل والی پولیس افسروں ٹیم سے ملاقات کی تھی جن میں شاہ بھیموجود تھے۔ اور اس میٹ
گ کا ریکارڈ موجود تھا۔
مرتضی بھٹو کو قتل کردیا
گیا۔ اور اسکا الزام اس پولیس ٹیم کیساتھ پر زرداری اور عبداللہ شاہ پر دھر لیا
گیا۔ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ مرتضی بھٹو کو زرداری نے قتل کروایا اور کئی سمجھتے
ہیں کہ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمینٹ نے۔ میں سمجھتا ہوں ہر اس کو شخص پاکستان کی
اسٹبلشمینٹ نے مروایا جسکا آخری نام بھٹو تھا سوائے ممتاز بھٹو کے۔
آخرکار نومبر انیس سو
چھیانوے میں بینظیر بھٹو کی حکومت آسوقت کے جیالے صدر فاروق لغاری نے برطرف کردی
اور سندہ میں ممتاز بھٹو کو سندہ کا نگران وزیر اعلی نامزد کیا۔ میرے ایک دوست نے
کہا یہ پاکستان کی اسٹبلشمینٹ کا بینظیر کو جواب تھا “جیئے سندہ”۔
ممتاز علی بھٹو نے نگران
وزارت اعلی سنبھالتے سب سے پہلا ،کام یہ کیا کہ اپنے خلاف قائم بغاوت کا مقدمہ ختم
کیا جو حیدرآباد کی انسدداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت تھا۔
زرداری اور مرتضی بھٹو کے
قتل آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس عملدار اور پولیس والے گرفتار کیے گئے اور
سندہ کے وزیر اعلی عبداللہ شاہ کو بھی مرتضی بھٹو قتل،کیس میں نامزد کیا گیا۔
ممتاز بھٹو نے بینظیر بھٹو کیس میں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کو بتایا تھا کہ مرتضی
بھٹو قتل اور بینظیر کیس قتل کیسوں میں ایک بڑی مماثلت یہ ہے کہ پولیس انسپیکٹر حق
نواز سیال کی طرح خالد شہنشاہ کو بھی قتل کردیا گیا۔
اس کیس میں تمام پولیس کے ملزمان واجد درانی
شاہد حیات، رائو، شکیب قریشی، و دیگران کو زرداری دور حکومت میں بڑے عہدوں پر رکھا
گیا جبکہ شکیب قریشی کو ڈی فیکٹو طور سندہ میں محکمہ داخلہ اور پولیس کا انچارج
بنایا گیا۔
ممتاز علی بھٹو نے اپنی وزارت میں بڑے بھٹو دور کے سابق بیورو کریٹ اور چھ حروں کے قتل،کیس کے سابق ملزم امداد اللہ انڑ کو احتساب کا انچارج مقرر کیا اور اپنی پارٹی کے کارکن اللہ ورایو سومرو کو شاید آبپاشی کا وزیر اور مظفر صادق بھٹی کو وزیر قانون بنایا.
امداد اللہ انڑ نے بینظیر دور اور اس سے قبل
لیاقت علی جتوئی کی بدعنوانیوں کے مقدمات کی بڑی تشہیر کی۔ یہ بھی رپورٹیں ہیں کہ
محکمہ جنگلات کی کافی بڑی اراضی ممتاز علی بھٹو یا اسکے لوگوں کے نام الاٹ کی گئی۔
لاڑکانہ کے شاعر کمشنر انوار احیدر کو ہتھکڑی لگا کر گرفتار کیا گیا۔
لیکن انیس سو ستانوے کے
انتخابات میں پی پی پئ کے امیدوار ایاز سومرو کیخلاف دھاندھلیاں کرواکر ممتاز بھٹو
کے اپنے بیٹے امیر بخش بھٹو کو صوبائی اسمبلی کی نشست سے جتوایا ۔
انیس سو ستانوے کے انتخاب
کے نتائج میں نواز شریف دوسری بار “ہیوی مینڈیٹ” سےوزیر اعظم
منتخب ہو کر آئے۔ اگرچہ نگران وزیر اعلی کو ایک ہی کام تفویض کیا جاتا ہے کہ وہ
شفاف و غیر جانبدارنہ انتخابات کروائے اور گھر کو واپس جائے لیکن اب “ہیوی مینڈیٹ”
وزیر اعظم کی طرف سے ممتاز بھٹو کو اپنی نگران چیف منسٹری سے سبکدوش ہونے سے قبل
ایک “ہیوی ڈیوٹی” سونپی گئی۔
وہی سندہ کی تاریخ کا ایک
اور بدنام زمانہ وزیر اعلی جسکی بدعنوانی کے مقدموں کی تشہیر ممتاز بھٹو حکومت نے
اور اسکے پیشروئوں نے کی تھی ا سندہ کا نیا وزیر اعلی نامزد کیا گیا۔ ۔ اب ممتاز
بھٹو کو یہ فرض تفویض کیا گیا کہ وہ اس بات کو یقین بنائیں کہ لیاقت جتوئی کی تمام
بدعنوانی کے مقدمات میں انکی وزارت اعلی کا حلف اٹھانے سے قبل ضمانت قبل از
گرفتاری ہوجائیں ۔ جانیوالی نگران حکومت کے وزیر قانون مظفر صادق علی بھٹی نے
متعلقہ جج سے رابطہ کیا اور جج لیاقت علی جتوئی کی بدعنوانی کے تمام مقدمات میں
ضمانتیں منظور کرنے پر تیار ہوگیا مگر ایک شرط پر۔ وہ شرط یہ تھی کہ جج صاحب کی
سالانہ کارگردگی کی مخفی رپورٹ یا اے سی آر میں جو انکے خلاف انکے بالا دستوں نے
منفی ریمارکس دیے ہیں وہ حذف کیے جائیں۔
نواز شریف انتظار مین تھا
جبتک لیاقت جتوئی کی تمام کیسوں میں ضمانتیں منظور نہیں ہوئیں اور وہ حلف اٹھانے
کے قابل نہین ہوئے۔ جبتک سلطان جہان والا کے گھر پر شامیانے لگا کر لیاقت جتوئی کا
انتظار ہوتا رہا اور بار بار نواز شریف فون کر کر لیاقت جتوئی کی ضمانتوں کا معلوم
کرتے رہے۔ اسی طرح ممتاز علی بھٹو اپنی اسی “ہیوی ڈیوٹی” نگرانی سے فارغ ہوئے۔ انکی
پارٹی کے الہہ ورایو سومرو جو رکشہ پر اپنی نگران وزارت کا حلف اٹھانے پہنچے تھے
وہ نگران حکومت ختم ہونے پر لینڈ کروز میں واپس لوٹے۔ امن امان کی صورتحال یہ تھی
اگر انکی نوے دنوں کے نگران حکومت کے دوران کوئی برآمدگی ہوئی تو صرف انکے بیٹے
امیر بخش بھٹو کی چھینی ہوئی گاڑی پولیس نے واپس کرائی۔ انکی نگران وزارت اعلی کی
دوران نیشنل فنناس کمیشن پر اجلاس ہوا اور یہ سندھ کے خالی خزانے پر اپنی دستخط کر
کر واپس آئے۔ کہتے ہیں کہ انکو ایک اعلی سنہ کا کتا پیش کیا گیا تھا۔
انکی پارٹی سندہ نیشنل
فرنٹ سے کئی لوگ اور انکے ساتھی ان سے ٹوٹتے گئے۔۔ یوسف تالپور تو پہلے ہی الگ ہو
چکے تھے لیکن کچھ عرصے بعد گل محمد جکھرانی بھی پیپلزپارٹی میں جاکر شامل،ہوا اور
ایم این اے بنا۔۔
اس نے دو ہزار تیرہ میں
اپنی پارٹی سندہ نیشنل فرنٹ کو پہلے مسلم لیگ نوز شریف میں اور اب ٹحریک انصاف میں
ضم کیا ہوا تھا۔ ممتاز بھٹو اب سندہ اور ملک کے لوگوں سے نا امید ہو چکے تھے جو
جسکا اظہار انہوں نے متعدد بار اپنے کئی انٹرویوز ان کے ساتھی زیادہ تر اب انکے
پرانے دوست اور شکار بھائی بچے تھے۔ لیکن مرتضی بھٹو اور پھر بینظیر بھٹو کے قتل
کے بعد وہ انکا دونوں وسیع وارداتوں کا زمہ دار آصف علی زرداری ہی کو ہی قرار دیتے
تھے۔
وہ بینظیر کی انکو پارٹی کا وارث بنا جانے کی
وصیت کو بہت سے لوگوں کی طرح جعلی سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ پولیس بھی عام طور
قتل کے کیسوں میں سب سے پہلے اسی پر ہاتھ ڈالتی جسے اس قتل سے زیادہ فائدہ،ہوتا ہے
اور بینظیر کے قتل کے بعد زیادہ سے زیادہ فائدہ زرداری کو پہنچا ہے۔ دور دراز سندہ
اور صحرا کے سفر شیل شکاروں نے انکی
صحت پر خراب اثر ڈالا
تھا۔ کس وقت وودکا کو پانی کی طرح پینے والے سرخ سپئد ممتاز بھٹو جنکا بہت پہلے
بائی دل کا بائی پاس آپریشن بھی ہوا تھا اب پھپھڑوں کے عارضی میں بھی مبتلا تھے۔
بس انکی ایک بات جو مجھ
سے لڑ گئی وہ تھی انکی انسانوں سے زیادہ،سوائے بچارے جنگلی سور کے، جانوروں اور
پرندوں سے پیار۔ انکے مداحوں نے انکی سوشل میڈیا پر ایک وڈیو پر انہی اخروٹ سے
تعبیر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں “اخروٹ باہر سے سخت لیکن اندر سے مزیدار اور نرم ہوتا
ہے۔” انکی تئیں انکا لیڈر ممتاز بھٹو بھی اخروٹ کی مانند تھا جو اپنے بنگلے پر کبوتروں
کو اپنے ہاتھ سے دانہ چگاتا تھا۔ اور علاقے کے انسان جس سے خوف کھاتے اسی ممتاز
بھٹو سے کبوتر اور کتے بہت ہی مانوس تھے۔
ان سے یہ غیر مصدقہ کہانی
منسوب ہے کہ ایک دفعہ سندھی زبان کے سب سے بڑے شاعر شیخ ایاز سے ان کی ملاقات ہوئی
تھی۔ممتاز بھٹو نے انکو اپنی شاعری سنانے کو کہا تھا۔ شیخ ایاز کی شاعری سنکر انہوں
نےکہا تھا “آپ کی شاعری بھی اچھی ہے لیکن ہمارے مقامی شاعر باڈاہی کی کیا بات ہے
”
وہ شخص جو سندہ پر دس سر
قربان کردینے کا دعوا کرتا تھا عمران خان کی پی ٹی آئی کے سندہ میں ایک اسپیئر
وہیل الیڈر کی حیثیت میں جہان رنگ و بو سے چلا گیا۔
وہ جو آکسفورڈ پلٹ ہوتے ہوئے بھی پائوں ننگے اور
مسکین لوگوں کو اسکے پائوں پڑنے کو عیب نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن انکی موت سے سندہ کے
عہد کا باب ایک بند ہوگیا ایک اور ٹیکسٹ بک جاگیردار چلا گیا۔ ۔ وہ اپنی نسل کے
آخری سیاستدان تھے جن سے برگیڈیئر سے اوپر والے بات کرتے تھے اب سیاست میں جو لاٹ
ہے انکے ہینڈلرس میجر بھی ہوں تو انکیلے بڑی بات ہے۔ لیکن بری خبر یہ ہے کہ
جاگیرداری کے پنجے سندہ کے نرخرے پر اسی طرح ہی گڑے رہیں گے۔