خواتین ماڈلنگ کا شعبہ اور انکے مسائل

فوزیہ جمیل فوزیہ جمیل

 خواتین ماڈلنگ کا شعبہ اور انکے مسائل

 طلحہ خان  سینئیر فیشن  فوٹو گرافر                 عاصمہ علی، ماڈل ، ایکٹر ، سوشل ایکٹیویسٹ ،  فرحین  اقبال ، ماڈل ، ایکٹر، سوشل ایکٹیویسٹ ،   سیننئیر کیمرہ مین ، وسیم 


 روشنی خوشبو خوبصورتی اور  انوکھے انداز میں ریمپ پر  رنگ بکھیرتےماڈلز اپنے دلفریب  انداز سے مصنوعات  اور کپڑوں کی نمائش کرتے نظر آتے ہیں، میگزین کا  سر ورق ہو، کوئی مصنوع ہو یا ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والے ماڈلز  شوبز اور میڈیا کا ایک بہت ہی اہم جز ہیں، کسی بھی شعبے میں کامیابی حاصل کرنا اور اسے قائم رکھنا ایک  مسلسل مشقت اور جدو جہد کا متقاضی ہوتا ہے۔ماڈلنگ    شوبز  کی دنیا کا ایک اہم  حصہ ہے جسے  فنکاروں کے لیے   ترقی کرنے کے ایک مختصر راستہ بھی کہا جاسکتا   ہے، لیکن یہ اتنا بھی آسان نہیں جتنا دیکھنے والوں کو نظر آتا ہے، ماڈلنگ کی باقاعدہ تربیت   ادارے اور  انہیں  مشتہر کرنے کے لیے کمپنیاں  قائم ہیں۔

آسان  لفظوں میں اگر ماڈلنگ  کی تعریف کی جائے تو  پاپولر  کلچر میں ماڈل  دراصل  اسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص  اپنے کردار کے ذریعے کسی چیز  کی تشہیر کرتا ہے ، اس کا میڈیم کچھ بھی ہو اسے کسی خاص مقصد کے لیئے  یا کسی خاص چیز کی تشہیر کرنے کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کوئی  مصنوع  یا کپڑے وغیرہ۔ ماڈلنگ کے شعبے کو  معنوی اعتبار سے دیکھا جائے تو ماڈلنگ  ایک ایسی اداکاری یا  پرفارمنس ہوتی ہے جس میں ماڈل خود اپنے آپ کو اور اپنے   فن کے مظاہرے کو پیش کرتا ہے ، جیسے ڈانس اور  فیشن شوز وغیرہ۔ مختلف   مقاصد اور مختلف کیٹیگری میں ماڈلنگ کو گنا اور سمجھا جاسکتا ہے۔

تاریخی پس منظر:

پہلی بار ماڈلنگ  کو 1853 میں چارلس فریڈریک وورتھ نے متعارف کروایا،  جو کہ "ہاؤٹے کاؤچر" نامی فیبرک ورک کو بنانے والے تھے  انہوں نے اپنی  شریک حیات کو اس فیبرک کے ڈیزائینز کی ماڈلنگ کرنے کو کہا ، اگر ماڈلنگ کی باقاعدہ  ایک تفرق کی جائے تو  ہمیں کئی اقسام کی ماڈلنگ دیکھنے کو ملتی ہیں ۔

 ماڈلنگ کے شعبے میں جہاں بے شمار  چمک دمک دکھائی دیتی ہے وہاں  مقابلے کا رجحان بھی بہت پایا جاتا ہے ماضی  میں  اس حوالے سے چند ایک    مشہور مثالیں  موجود ہیں  جیسے1930 کی مشہور ماڈل لیزا فونسا گریفس پہلی بار "ووگے" فیشن میگزین میں نمودار ہوئی،  پھر ایل فیشن ماڈل کی حیثیت سے مشہور ہوئی۔1940 کی مشہور فیشن ماڈلنگ ایجنسی" فورڈ ماڈلز"  جسے ایلین اور جیریرڈ فورڈ نے متعارف کروایا تھا  ۔ 1940 میں اس وقت کی مشہور ماڈل جنز فالکن برگ   فی گھنٹے 25 ڈالر ز لیا کرتی تھیں،  1940 سے 1950 کی ماڈلز میں جن کا تعلق زیادہ تر امریکہ سے تھا، ویلہی لیمینا ، جین پیچیٹ، ڈو یما، ڈوورین، سوزی پارکر، ایویلان ٹرپ، کارمین ڈیلو ریفیز ، اور لیزا فونسیگریفس  غالب رہیں، ڈوورتھا چرچ پہلی بلیک  ماڈل تھی۔ اس وقت فیگر کا اسٹینڈرڈ  متعین کردیا گیا تھا ، جو کہ 32-23-33 تھا جبکہ ویلہی لیمینا  کا 38-24-36 فیگر تھا، جس کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ  اس وقت فیگر کو  اپنانا   بہت مشکل تھا  ۔یہاں ایک بات کو واضح کردینا بہت ضروری ہے کہ  انیسیو یں صدی  میں ماڈلنگ کے شعبے کوئی کسی بھی معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اور اس  شعبے میں داخل ہونے والی خواتین   کا تعلق  زیادہ تر نچلے طبقے  سے  ہوتا تھااسی لحاظ سے ماڈلنگ میں خواتین کو  ہی اشتہارات کے لیے  رکھا جاتا تھا۔

1960 میں  ماڈلنگ کا معیار بلند ہونا شروع ہوا جس کی وجہ ماڈلنگ ایجنسیوں کا ماڈلنگ کو  ایک باقاعدہ پیشے کے طور پر  استعمال کرنا بنی، میگزین میں ماڈلز کا استعمال اور پھر   ماڈلز کو بھی پروموٹ کیا جانے لگا  جس کی وجہ بعض ماڈلز کا بہت زیادہ جنسی اور جسمانی کردار  کا اعلیٰ معیا ر  تھا،  1970 کی ایک ماڈل اسکینڈی نیویا کا قد بہت لمبا  اور  گوری رنگت اور سنہرے بال  ، نیلی آنکھیں تھیں وہ اس وقت کی فورڈ ماڈلس ایجنسی کی  سب سے زیادہ منجھی ہوئی ماڈل تھی۔ ان تمام تبدیلی کی وجوہات  کو  ہم  لٹریچرز  کے زریعے سمجھ سکتے ہیں۔یہاں   قابل ذکر بات  یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کی  اشتہار نگاری اور  ماڈلنگ  کو کس طرح   ترتیب دیا جاتا ہے جس کے لیے پہلے پاکستانی  ماڈلنگ کے شعبے کے ڈھانچے پر نظر ڈالتے ہیں۔

پاکستان میں    ماڈلنگ اور خواتین کا کرداری خاکہ

پاکستان میں ماڈلنگ کی  تاریخ بالکل بھی طویل نہیں، 1929 سے 1950 تک  کوئی  خاص  معیار  نہیں تھا اور نا ہی  فیشن ماڈلنگ کا کوئی تصور ، اخبارات اور  ٹی وی کے اشتہارات  میں  محض خانہ پری  تھی، 1960 کے اواخر میں    خواتین   کا ایک معیار ہوسکتا تھا ،  لیکن جس طرح  قوانین اور صرف  سرکاری چینل ہونے کی وجہ سے  انڈسٹری محدود تھی ان سب حالات میں ماڈلنگ  کے شعبے کا پنپنا ناممکنات میں سے تھا ۔صغرا کاظمی اس وقت  غالباَ    وہ واحد  جدید  فیشن کی حامی اور فیشن  شناس  تھیں جنہیں تسلیم کیا گیا، اس کے علاوہ ماہین خان لاہور میں  سیم اسٹریس کے نام سے مشہور ہوئیں ، انہوں نے فرانسیسی ڈیزائینر سے  تربیت لی اور اپنے کاروبار  کو وسعت دی  ، ماہین خان کے عروج کا سفر بہت آہستہ رہا لیکن بہت پائیدار اور یادگار  ہے، جو کہ پاکستان کے   سب سے بڑے برانڈ، ٹی جیز کے نام سے زندہ ہے،اور اس کے پیچھے بلا شبہ کسی میگزین  کا ہاتھ نہیں تھا ۔1970  کے دور میں تنویر جمشید  دور اندیش اور  قابل شخصیت تھے جنہوں نے حسینہ معین کے ڈراموں میں  جو کہ 1973 میں  کرن کہانی کے نام سے نشر کی گئی، ٹی جیز کا بہلا کامیاب اشتہار چلانے میں کامیاب ہوئے جو کہ بے انتہا مقبول اور کامیاب رہا اور اگلے  دو دہائیوں میں ان کی تعداد دو درجن سے زیادہ ہو گئی۔تنہائیاں ڈرامے میں  مرینہ خان کا وارڈروب  جو کہ حسینہ معین کا ایک اور کامیاب سیریل تھا، میں   مرینہ خان کے کپڑے جن میں پیچ دار شلوار اور رنگین قمیض شامل تھی بہت مشہور ہوئے ۔1980 میں  جنرل  ضیا الحق   نے اسلامی شریعہ قانون   نافذ کیا جس کی وجہ سے  اس عمل میں ایک  خاموش بریک آگیا۔1989 میں  پاکستان کا سب سے بڑا فیشن جو جسے ماہین خان نے  منعقد کیا تھا ، بہت مشہور ہوا۔جو کہ فیشن کی دنیا میں ایک نیا انقلاب تھا ۔

فیشن ’’ 90 کی دہائی کے ذریعے فروغ پایا لیکن یہ 2000 کی دہائی کے اوائل کی بات ہے ، جب نوجوان اور پرجوش فیشن ڈیزائنرز کی پہلی کھیپ نے لاہور میں پاکستان اسکول آف فیشن ڈیزائن سے گریجویشن کیا کہ فیشن کا ڈھانچہ ہمیشہ کے لئے بدل گیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایچ ایس وائی ، ماہین کاردار ، نومی انصاری ، ماریہ بی اور کامیر روکنی کو پاکستانی فیشن کو   اور اس کی مارکیٹنگ کے طریقے کو تبدیل کرنا تھا۔

 میڈیا میں خواتین کا کرداری خاکہ

میڈیا میں خواتین کے کردار کو کس طرح دکھایا جاتا ہے اور کس طرح اسے لوگ اپنے ذہنیوں میں قبول کرتے ، یا دیکھنے والے کن زاویوں سے انہیں پرکھتے ہیں، اس   تصور کو اجاگر کرنے اور ان سوالوں کو جاننے کے لیئے  بے شمار تحقیقاتی تجزئے کیئے گئے جن سے بہت  سی باتیں واضح ہوئیں اور بہت سی چیزیں ابھی تک غیر واضح ہیں,   خواتین سے وابستہ اشاعتی  اجزاء کہیں نا کہیں  ذہنی تسکین یا جنسی عنصر رکھتی ہیں جنہیں  اجاگر کر کہ ہی کسی مواد کو بہتر سمجھا جاتا ہے، مین اسٹریم میڈیا یعنی  اجارہ داری  کی وجوہات کی بنا پر بنایا گیا معیار اور خواتین کو   ہی زیادہ تر نمائش کی چیز کے طور پر سامنے رکھا گیا ہے۔ بنیادی طور پر دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں جن میں دونوں ہی کافی حد تک درست ہیں , اول ،  خواتین کی حقیقی زندگی سے متاثر ہو کر اسے زیادہ " ہیجانی" صورت میں پیش کیا جاتا ہے، اور کچھ خواتین ایسے کرداروں کو بخوشی ادا کرتی ہیں۔

ماڈلنگ کے مراحل

ماڈلنگ کا شعبہ کیا ہے اسے اپنانے کے لیے کیا طریقہ کار اپنا یا جاتا ہے۔ اس حوالے سے   اسماء علی  جن کا تعلق   لاڑکانہ سے ہے اور اب کراچی میں رہائش پذیر ہیں ، اسماءعلی بنیادی طور پر  ڈرامہ آرٹسٹ اور ماڈل ہیں لیکن جز وقتی طور پر سماجی کارکن ہیں اور اب بھی کامیابی کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں   انہیں  فلم تلاش   میں بہترین معاون اداکارہ کے طور  پر ایوارڈملا ۔   سندھی اور اردو میڈیم دونوں میں کام کرتی ہیں۔ میڈیا میں آٹھ سال ہوئے کام کر تے ہوئے، انہیں  نہ  صرف ماڈلنگ ، اداکاری ، ہوسٹنگ بلکہ میک اپ آرٹسٹ اور وائس اوور آرٹسٹ کا بھی تجربہ ہے۔ اور اب صرف ڈراموں میں ہی اداکاری کر رہی  ہیں۔کہتی ہیں ۔

"ماڈلنگ ڈائریکٹ نہیں ہوتی، اس کے کچھ  اسٹیپس ہوتے ہیں، سب سے  پہلا مرحلہ جس میں یہ  دیکھا جاتا ہے کہ  ماڈل    کونفیڈنٹ اور بولڈ ہے، بولڈ سے مراد  کہ وہ ہر طرح کے  شوٹس کرسکتا ہے یا نہیں ۔  اس کے بعد  ہر طرح کے ڈریسس کے ساتھ ریمپ پر  لمبی لمبی ہیل کے ساتھ واک کروایا  جاتا ہے جسے  کمفرٹ  لیول کہا جاتا  ہے۔اور پھر اسے لوگوں کے سامنے مہینوں کی پریکٹس کے بعد لایا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کتنے کمفرٹ  طریقے سے ان سب چیزوں کے ساتھ خود محسوس کرتا ہے، اور  محسوس کرواتا ہے ۔ ماڈلز   مختلف قسم کے ہوتے  ہیں"۔

ہاؤس ماڈل ، ہاؤس ماڈلز فیشن شوز کو انجام دیتے ہیں، ان  میں   کپڑوں کی نمائش اور ریمپ واک شامل ہوتی ہے اس میں جسمانی تناسب کی کوئی قید نہیں  ہوتی ، یہ بنیادی طور پر پرشین  فیشن ہاؤسس سے دریافت ہوا .فیشن فوٹو گرافی ، ماڈلنگ کے بعد مزید ترقی نے  فیشن ماڈلنگ کو  متعارف کروایا ، اور پھر فیشن فوٹو گرافی کی ابتدا ء ہوئی جس میں محض ماڈل ہی  اپنے فوٹو شوٹس کو  فروخت کرنے لگے، 1950 سے پہلے ماڈلنگ  میں بہت  کم اجرت دی جاتی تھی لیکن جب ،  فیشن ماڈلنگ کی ابتداء ہوئی تو یہ ایک باقاعدہ ایک شعبے کی شکل اختیار کر گیا۔ 

ان  اقسام اور تفریق کو اسماء علی کچھ یو بتاتی ہیں کہ " ٹی وی سی، ایکٹنگ ماڈلز ہوتی ہیں،  اور ریمپ ماڈلز ہی میگزین شوٹس بھی کرتی ہیں، ماڈؒز کو ہم تین زمروں میں تقسیم کرسکتے ہیں، سب سے پہلے سی کیٹیگری  ہوتی ہے جس میں چھوٹے پیمانے اور بنا برانڈ یعنی بغیر کسی بڑے نام کے  شوٹس ہوتے ہیں ، یہ پرائیویٹ بھی ہوتے ہیں۔اس کے بعد بی کیٹیگری  کے ماڈلز ہوتے ہیں جو    کہ  مسلسل جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں اور خود اپنی محنت  سے آگے بڑھتے ہیں ، بنا کسی  بیک اور بڑے نام کے۔انہیں میں سے زیادہ محنت کرنے والے آگے بڑھ کر   اے کیٹیگری میں شامل ہو جاتے ہیں۔اے کیٹیگر ی میں  زیادہ تر  اداکاروں، ماڈلز  اور بڑی فیملیز کی اولادیں ہوتی ہیں۔جن کی بیک اچھی ہو،  وہ ڈائریکٹ اے کٹیگری میں ہی آتے ہیں۔ایک طرح سے اسے ہم نیپو ٹیزم بھی کہہ سکتے ہیں۔

 

ناظرین کی رائے کا تجزیہ

بلا شبہ یہ ایک پہیلی ہے کہ انسانی فطرت کس انداز سے سوچتی ہے اور کس طرح رد عمل ظاہر کرتی ہے، اس کا اندازہ اوسطاَ  ہی لگایا جا سکتا ہے۔جس کے لیے جامعہ کراچی ، شعبہ ابلاغ عامہ میں کئے گئے ایک سروے  میں  دیکھنے والوں اور ماڈلز  سے انکی رائے لی گئی   اس پر 55 فیصد ناظرین     یہ سمجھتے ہیں کہ ماڈل جو ایڈوانس  اشتہارات  کا حصہ ہوتی ہیں وہ مصنوعی تاثرات کا سہارا لیتی ہیں اور مجبوری میں بولڈ شوٹس کرواتی ہیں ،   جبکہ 24 فیصد کا   کا خیال ہے کہ  خواتین ماڈلز اپنی مرضی سے   کسی بھی قسم کے اشتہارات کو کرتیں ہیں۔تحقیقی تجزیہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ میڈیا میں خواتین کو  حقیقت سے بہت دور کردار میں دکھایا جاتا ہے جو کہ بہت پر اثر ہوتے ہیں جن میں منفی اور مثبت دونوں طرح کے کرداروں کو اہمیت حاصل ہوتی ہے، تحقیق سے اس بات کو یہ بھی تقویت ملی کہ حقیقت اور تصور کی اس کشمکش کو سلجھانے کے لیے اداکارہ و ماڈل فرحین  اقبال  سے بات کی،فرحین اقبال ، کراچی سے تعلق رکھنے والی خو برو ، اور با صلاحیت اداکارہ ہیں جنہوں نے چائلڈ پرو گرام  سے ابتدا ء کی اور   ماڈلنگ میں  خود کو منوایا اپنی بہترین اداکاری سے    اپنی جگہ بنائی، بہترین انسان اور ایک بہترین اداکار ہ  ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک  بزنس وومین بھی ہیں ، جس کی وجہ سے ان کا اپنا ایک الگ معیار اور شخصیت ہے ، قدرتی طور پر خواتین کی الگ شخصیت اور ان کی حدود کی قائل فرحین اقبال ، نے اپنے خوبصورت انداز میں خیالات کا اظہار کیا۔

 " میرا بیک گراؤنڈ ایسا تھا کہ اجازت نہیں مل رہی تھی،  وہ پلے تھا جیو پر بچوں کا سیریل تھا۔میں نے گھر والوں کو کہا کہ بچوں کا پلے ہے اس میں میں بچوں کیساتھ ہی ہونگی، گھر والوں نے اجازت دے دی۔گریجولی آپ کو سیڑھی مل جاتی ہے، اور پھر سب کو  اچھا لگتا ہے،   لڑکیوں ،    کی عزت  بھی بہت ضروری ہے۔اسے بھی قائم رہنا چاہیئے تاکہ کسی کو اعتراض نا ہو"

مصنوعی اور بناوٹی   تاثرات کے حوالے سے انہو ں نے کہا کہ " ہاں جی بالکل کچھ  لو گ محض فیم کی وجہ سے اپنے آپ کو اس طرح پیش کرتے ہیں، سب کی اپنی اپنی پریارٹی ہے، اس کام میں ایک نشہ ہے در حقیقت جس جگہ آپ کو عزت ملے شہرت ملے اس  میں بہت کشش محسوس ہوتی ہے، لوگ  آپ کو مانتے ہیں آپ کے نام کو جانتے ہیں،وہ چاہے چند لوگ ہوں  یا بہت  سارے لوگ ہوں کشش تو ہوتی ہے۔ہم سب کس لیئے کرتے ہیں کہ لوگ ہمیں پہچانیں کوئی بھی کام ہو   جیسے  ڈاکڑز بھی ہیں انجینئیر بھی ہیں، تو وہ کہتے ہیں میں ڈاکٹر ہوں ، کیوں کہ میں نے یہ اسٹڈی کیا ہے میری پہچان بنے یہ۔اور یہ پہچان  بہت بڑی بیماری ہے" ۔

صرف خواتین کو ہی ایسے کیوں پیش کیا جاتا ہے مردوں کو ایسے پیش کیوں نہیں کیا جاتا؟

  اسما ء علی نے کہا کہ" خوبصورتی عورت کے لیئے ہی ہے، بننا ، سنورنا میک  اپ  سب عورت  کی ہی چیزیں ہیں اور یہ ابھی سے نہیں یہ شروع دنیا سے ہی ہے۔ کہ  مرد جتنا بھی کرلیں  حسن  عورت کا ہی  حق ہے، مرد بھی کرتے ہیں بالوں کا اسٹائل اسکن کے پروٹیکٹ، ڈریسنگ انکی ہوتی ہے۔ہماری طرح میک اپ نہیں کرتے لیکن  پھر جو فرق ہے مرد اور عورت میں یہی تو ہے نہ    اور مردوں کی پسند نہیں بلکہ خراتین کی بھی پسند بھی خواتین ماڈلز کو دیکھنے کی ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔مرد اور عورت دونوں ہی دیکھنے والے ہیں ، عورتیں تو زیادہ ہیں کیوں  کہ پھر وہ ان  سے   انسپائریشن لیتی ہیں،  چیزیں اسٹائل،  فیشن، میک اپ سے لیکر  کپڑے وغیرہ"۔

 خواتین ماڈلز  کوغیر معیاری  ڈریسنگ جان بوجھ کر کروائی جاتی ہے کہ لوگ متوجہ ہو ۔واقعی خواتین ماڈلز فوٹو شوٹس مجبورا ایسے کپڑے پہنتی ہیں یا خوشی سے یہ کردار ادا کرتی ہیں؟

 فرحین  کہتی ہیں کہ

"  یہ صرف اور صرف   فیم کا نشہ ہے۔جب آپ ہینڈل نہیں کر سکتے ، فیم ملنا  بہت آسان ہے اور نیوڈٹٰی دکھا کر تو ، راتوں رات   فیم مل جاتا ہے۔یہ آپ پر ہے، جیسے میں سلیو لیس نہیں پہن سکتی، میں چھوٹے کپڑے نہیں پہن سکتی، جیسے بالی ووڈ میں وہاں تو انکا میڈیا اس طرح دکھاتا ہے، وہاں بہت کم لوگ امیر ہین لیکن جب وہ اپنے  ڈراموں میں دکھاتے ہیں تو اربوں سے بات شروع کرتے ہی۔اور معلوم نہیں کہاں تک پہنچ جاتے ہیں،  تو میڈیا کو کلچر سے ریلیٹ نا کریں،ہمارا کلچر الگ ہے وہ ہم ڈراموں کے زریعے پوٹرے کریں گے، میرے خیال میں تو ڈرامے بھی آج کل صحیح نہیں بن رہے ،یہ سب الگ چیزیں ہیں، اب جیسے میں لیئے جتنی بھی اماؤنٹ ہو، میں  غلط چیز قبول نہیں کرتی ، لیکن جس کو اچھا لگتا ہے جو کرنا چاہتا ہے وہ کرسکتا ہے، بعض مرتبہ لوگ گریڈی ہو جاتے ہیں کہ یار اتنی محنت کے بعد بھی اس نام تک نہیں پہنچ پا رہے، تو سوچتے ہیں  راتوں رات شوٹ کرواؤ اور بس پہنچ جاؤ لیکن ایسا سب نہیں کرتے ، جو صبر شکر سے بڑے دل کے ہوں وہ اپنے مکمل صحیح پہچان بنا لیتے ہیں،  ہر جگہ اچھی اور بری دونوں چیزیں ہوتی ہیں آپ کو دیکھنا ہے آپ کیا کر سکتے ہیں ۔ جلدی اور زیادہ کمانے کی لالچ میں  غلط راستے اختیار کیے جاتے ہیں ،  لیکن ایسا  ہمیشہ نہیں ہوتا  کیوں کہ اگر کسی کو کوئی اچھا راستہ اور اچھے لوگ مل جائیں قسمت سے تو آگے بڑھنے کا  موقع مل جاتا ہے ترقی دھیرے دھیرے صحیح لیکن پائیدار ہوتی ہے"۔

 ماڈلنگ کا شعبہ ایک  مسلسل مقابلے  کا شعبہ ہے،  اور اس میں مختلف صورتیں ہوتی ہیں،  شہرت ، پیسے  اور تعلقات  پر مشتمل کچھ مفادات  میں بھی ترقی  کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے، صبا نور(نقلی نام)  نے  نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر  انہو  ں نے بتایا کہ   اگر اس شعبے  میں   بہت زیادہ مشکلات کا سامنا  رہتا ہے تو یہ غلط نا ہوگا کیوں کہ  جس مقصد اور ٹارگیٹ   کو لیکر میں نے اس   شعبے میں قدم رکھا تھا وہ میں ابھی تک حاصل نہیں کر سکی ہوں۔مسلسل کوشش کے باوجود بھی ، اس شعبے میں آنا آسان ہے نام اور مقام  بنانا بہت مشکل اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں اداکاروں  اور  دیگر  پروڈکشن  کے کرداروں کے  بیٹے بیٹی ، بھانجے بھانجی ،بھتیجے وغیرہ    کا ہونا ہے ، یہ ایک  کڑوی حقیقت ہے کہ  اگر  آپ کا  کوئی گاڈ  فادر نا بیٹھا ہو وہاں۔اور جن کے سر پر کوئی بھی سپورٹ  نہیں ہوتا پھر وہ  جائز نا جائز زرائع استعمال کر کے راتوں را ت اس مقام تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن  ان میں سے کچھ ہی  اول صف میں داخل ہو پاتے ہیں ۔ ورنہ  ہماری طرح کوشش ہی کرتے رہتے ہیں ۔ماڈلنگ کا  ایک اسٹنڈرڈ صرف  بولڈنس اور ہر طرح کے کپڑوں  میں خود کو بھی نمایاں رکھنا ہوتا ہے، اور تیسرا اسٹنڈرڈ جو پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ ،  کسی گاڈ   فادر کی سر پرستی  ضروری ہے، چاہے مرد ہو یا خاتون ہو اور کسی بھی انڈسٹری  میں  چاہے  ہولی ووڈ، لولی ووڈ  یا   بولی ووڈ ہو ہر جگہ اسٹنڈرڈ یہی ہے، بولڈ ہونا، ہر طرح کی    ڈیمانڈز پوری کرنا     اور کسی گاڈ فادر کا ہونا"۔

جنسی ہراسگی

پاکستان  میں جنسی ہراسگی کے حوالے سے اسماء کہتی ہیں کہ جنسی ہراسگی بالکل ہوتی ہے لیکن یہ  زبردستی والی نہیں ہوتی اس  میں کبھی کبھار  مرضی والی بھی ہوتی ہے جیسا میں پہلے بھی بتا چکی ہوں  مختصر وقت میں  جلدی شہرت کی وجہ سے"۔

صبا  نور پاکستان میں میڈیا کی فیلڈ میں  جنسی  ہراسگی    کے  لیے  کہتی ہیں کہ "کسی بھی انڈسٹری میں آج کل بطور ہتھیار   استعمال کیا جاتا ہے، دونوں طرف سے ہونے والا یہ طریقہ،   شورٹ راستہ ہوتا ہے صف اول تک پہنچنے کے لیے بھی،   ان تمام  مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے کبھی کبھی"۔

کیمرہ مین  وسیم مغل  جن کا تعلق کراچی کے نجی  چینل  سے  ہے۔انکے بائیس سالہ تجربہ کے بعد ماڈلنگ کے ساتھ ساتھ انکو  میڈیا کے ہر شعبہ   میں فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی کا تجزبہ ہے۔انکا کہنا ہے کہ  مشکل کام نہیں ہوتا ، ماڈلنگ اتنا مشکل نہیں ایکٹنگ زیادہ مشکل ہوتا ہے، ہمیں ہر کام میں    الگ دلچسپی سے کام کرنا ہوتا ہے ،  فیشن  سے متعلق جتنے بھی لوگ ہیں ،  جب وہ  آتے ہیں ، تو فیم  حاصل کرنے کے لیے ان پر شرائط ہی سب سے پہلے یہ ہوتی ہیں کہ انہیں ساری ڈیمانڈز پوری کرنی ہوتی ہیں،  اس کے ساتھ ساتھ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ لڑکے لڑکیاں آگے جا کر نشہ بھی کرنے لگ جاتے ہیں، کیوں کے جو پہلا بریک دیتا ہے انکی  بھی الگ ڈیمانڈز ہوتی ہیں۔بعض  ایسے حالات کو سنبھال نہیں پاتے اور آگے بھی نہیں بڑھ پاتے۔اس کے علاوہ  جہاں بات ہراسگی کی ہے تو یہ حقیقت ہے، خواتین کا بنا ہراسگی آگے بڑھنا تقریبا ناممکن ہے کیوں کہ یہاں ہر موڑ پر مل جاتے ہیں ہمدرد ہزاروں ، اور انکی اتنی ہے ڈیمانڈز، پروڈکشن  کا پورا پراسس  ماڈلز کے لیے ایک بہت مشکل اور نازک مرحلہ ہوتا ہے۔جب سے اس فیلڈ میں ہیں یہی سنتے آرہے ہیں۔اگر تناسب کی بات کی جائے تو  80 فیصد  ہراسگی پائی جاتی ہے۔ یہاں بات یہ آجاتی ہے ہے کہ پراڈکشن  ہاؤسس میں  جو پرائیویٹ  کیمرہ مین ، ہوتے ہیں وہ  خواتین کو بلاوجہ بھی ہراس کرتے اور پریشان کرتے ہیں ، کیوں پھر جو خاتون ہوتی ہے اس سے اپنا  مطلب نکالنے کے لیے اسے ڈرا کر بھی رکھا جاتا ہے ، کیوں کہ ایک کیمرہ اینگل تبدیل ہوجانے سے اس خاتون کا پورا شوٹ خراب ہوسکتا ہے، اور   فیشن پراڈکشن ہاؤسس کے لوگ الگ سے پرائیویٹ کیمرہ مین تھوڑے سستے میں رکھتے ہیں جو صرف اسی کام کے لئے ہوتے ہیں اور پھر وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، کئی ایک واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔بات سامنے آجائے تو ٹھیک نہیں تو سب  ویسا ہی چلتا رہتا ہے "۔

جب سینئیر کیمرہ مین  طلحہ خان  فیشن فوٹو گرافر جن کا تعلق نامور  نجی چینل سے رہا ہے کہتے ہیں کہ

"اصل میں تصویر  کے دو رخ ہوتے ہیں اب دیکھنے والے پر منحصر ہوتا ہے کے وہ کس ذاویہ سے تصویر کو دیکھ رہا ہے۔ جتنا آپ کی معلومات اور سوچ ہے آپ اس کے ہی مطابق سوچتے ہیں، کوئی بھی ماڈل یا اداکار یا اداکارہ صرف پروفیشنل فوٹو شوٹ نہیں کرواتے ،  جن تصاویر اور اشتہارات کو ہم پرکشش کہتے ہیں دراصل وہ تصاویر بولڈ ہوتی ہیں، اور زیادہ تر یہ تصاویرذاتی فوٹو شوٹ ہی ہوتی ہیں ، کیوں کہ ماڈلنگ  میں لاء اور اخلاقیات کے پیمانے متعین ہوتے ہیں۔ پبلیکیشن اور ادروں کی طرف سے اور سینسر بورڈ کی طرف سے بھی۔خاص طور پر  غیر معیاری  ڈریسنگ کروا کر ہمارے معا شرے کو عریانیت فروغ دی جاتی ہے تاکہ کچھ خاص طبقہ کے لوگ متاثر ہوں اور افسوس ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں کی سوچ پر انحصار کر رہا ہے۔ خوشی  سے یا مجبوری سے عریانیت و فروغ دینا  کہ جواب میں طلحہ نے بتایا کہ   ذیادہ تر خوشی اور زیادہ پیسے کی عوض کرتی ہیں   لیکن  پاکستان میں غیر معیاری  یا عریانیت کا تناسبدوسرے ممالک کی انڈسٹریز سے کم ہے، انکا کا مزید کہنا ہے کہ خواتین پرکشش ہوتی ہیں اس وجہ سے انہیں ایسے پیش کیا جاتا ہے اور کیوں کہ ہمارے ملک کے  انڈسٹری پالیسی میکرز  کا مائینڈ سیٹ ہی ایسا ہے ، کہ خواتین ہی زیادہ بہتر انٹر ٹینر ہوتیں ہیں"۔

  اب اس بات کو واضح کیا جاسکتا ہے کہ ،کیا واقعی خواتین ماڈلنگ اور فوٹو شوٹس میں اپنا کردار نبھارہی ہیں جیسا کردار ادا کرنا چاہیئے، معیاری کام کرنے والے 80 فیصد ماڈلز پاکستان میں ،  ماڈلنگ  کے شعبے میں  کام کر رہے ہیں۔ ماڈلز کے    اس حوالے سے  جوابات میں یہ مماثلت ہے کہ جتنا  اس دور میں مقابلہ ہے پہلے کبھی نہیں تھا اس حوالے سے ایڈوانسمنٹ بھی ضروری ہے کیوں کہ ہم بہت پیچھے ہیں۔

ماڈلنگ میڈیا کے تمام ہی شعبوں میں اہم  جز ہے،   اگر میڈیا  ہاؤسس اپنے اپنے طور پر بھی ان کے تحفظ  اور صاف ستھرے  طریقے سے معیاری کام اور معیاری ماڈلز کو جگہ دی جائے ، جو کہ تمام بنیادی صلاحیتوں  کے حامل ہو ں۔ اس طرح معیاری  کام اور معیاری پراڈکٹ ھاصل ہوسکتی ہیں، جو کہ نیپوٹیزم سے پاک ہو اور  پاکستانی انڈسٹریز   کا پائیدار کام میں مزید معیار بن جائے گا اور با صلاحیت لوگوں کو آگے آنے کا موقع ملے گا۔