آگ کا دریا،ناول، موضوع ، فکر
آگ کا دریا ناول ادب میں دانشوری کی بلندی کو چھو
جانے والا ناول ہے۔
اس ناول میں فکرکو موضوع بنایا گیا ہے۔
ایسا تجربہ
پہلے ہوا ہے نہ اب تک کیاگیا ہے۔
یہی وجہ ہے
کہ دانشوروں میں اسے خاص پذیرائی ملی اور
اسے بےحد پسند کیاگیا ۔
اس میں قصے کو پلاٹ کو جو اہمیت ہے اسے پڑھنا سمجھنا
ایک خاص ذہانت کا کام ہے۔
یہ ایک نئے
عہد کا آغاز تھا اسے پڑھنا سمجھنا اس وقت چیلنج سمجھا جاتاتھا کہ اگر آگ کا دریا
آپ نے پڑھا ہے تو آپ ادب کے صیحیح قاری ہے۔
عمومی طور پر اس تصور کو سمجھا جاتاہے کہ ایک ناول
ایک پلاٹ قصے پر شروع ہوتو اسی پر ختم ہو ۔
اس ناول کی
خصوصیت یہ ہےکہ کہانی کا مرکز توڑ دیاہے ۔
اس ناول کو ذہن کی سطح طاقت کو لگا کر پڑھنا پڑھتاہے
۔
آگ کا دریا اپنے عہد
کی بہترین تخلیق
کسی بھی معاشرے کی ترقی ذہنی اٹھان اس دور کی مرہون
منت ہوتی ہے۔ایسے حالات اور معاملات پیدا ہوتےہیں جس میں ایک تخلیقی اور ذرخیز ذہن
جنم لیتاہے۔
کسی بھی معاشرے
کے اندر جو فنکار ہے جو دانشور ہے جو ادیب ہے وہ معاشرہ اس سطح تک پہنچ چکاہےجو
اپنےحالات تاریخ اور تہذیب پر قلم اٹھاتاہے اسے سمجھتا ہے اسے لکھتا ہے اس ناول سے
قبل ہمارے یہاں کلاسک سے تصوف ہمارے یہاں کافی عرصے تک چلتا رہا دانشوری ادب میں
پہلے غالب پھر اقبال یہ شاعری میں ہے لیکن آگ کا دریا اپنی نوعیت کا ایک منفرد
ناول ہے۔جواپنے عہد کی بڑھوتری گرومنگ کا ترجمان
ہے۔
قراۃ العین
حیدر کا پس منظر
وہ ایک خاص کلاس سے تعلق رکھتی ہے اسی کلاس میں پیدا
ہونا اس جیسا ہونا 1926 میں پیدا ہوئی پاکستان بننے سے پہلے 20 سال پہلے پیدا ہوئی
ہیں۔جو انکی ایک شخصیت کی خاص بات یہ ہےکہ سجاد حیدر یلدرم اردو کے شروع کے افسانہ
نگارمیں شمارکئے جاتےہیں انکی بیٹی ہیں۔انکی والدہ بھی باقاعدہ لکھنے والی تھی اس
زمانے سے لکھ رہی تھی اس عہد میں مسلم لڑکیاں بچیاں خواتین اپنے شوہر کے نام یا بھائیوں کے نام سےلکھا کرتی
تھی لیکن انکی شادی جیسے ہی سجاد حیدر یلدرم سے ہوئی تو انہیں وہ ماحول ملا جس میں
وہ سوچتی تھی لکھتی تھی انہوںنے خواتین کے حوالے سے انجمن قائم کی کئٰ اسکول کھولے
ان کے والدہ کے تراجم انگریزی میں بھی چھپا کرتے تھے۔
قرۃ العین حیدر کو مس عینی ،عینی اورقرات
بھی کہتےہیں انہوں نے اپنی
پہلی کہانی تیراہ سال کی عمر میں لکھی جو چھپ چکی تھی۔
یہ برٹش دور میں بھی ایلیٹ تھے بعد میں بھی ایلیٹ رہے
۔
جن جاب پر رہی اتاشی کے طورپر لندن میں رہی پی آئی
اے کی انفارمیشن آفسر پاکستان جوڈاکیونٹری بنتی رہی انکی ایڈیٹر بھی رہی ہیں۔
سات کے قریب ناول ،سات افسانے، سوانح عمری ، تنقیدی
مضامین ، کہانیاں لکھی ۔
1942 میں پہلا افسانہ چھپتا ہے پاکستان بننے پر وہ 20
سال کی تھی یہ وہ عمر تھی جس میں شعور ابھر چکاہے شخصیت بن چکی ہے
دو عالمی
جنگیں ، پاکستان کو بنتے دیکھ رہی ہے دو عالمی جنگوں کو ختم ہوتے دو تین سال ہوچکے
ہیں ماڈرن ازم کی تحریک بہت تیزی سے چل رہی ہے مارس ازم کے ساتھ فرائیڈ کے ساتھ
فکری حوالے سے ذٰیادہ اہم ہے۔ وجودی سوالات اس دور میں ابھرنا شروع ہوگئے تھے جو
یورپین رائٹر کی تحریروں میں آنا شروع ہوگئے تھے عالمی جنگ سیکنڈ ایلیٹ ازم میں انکی
تربیت ہوئی انکے پہلی تصانیف میں رومنٹک ماحول، پر تکلف ماحول پر لکھا گیا بعد میں ہجرت فسادات تقسیم کے ماحول
دیکھا تو تخلیقی پانچویں کتاب ۔ میرے صنم خانے(جدوجہد )سے متعلق ہے ۔سفینہ غم دل (اس
میں تقسیم تک کا عمل ہے۔۔)۔ یہ دور دو حوالوں سے اہم تھا والد کا انتقال 1947 میں
ہوا انقلابی تھے منفرد ہے
تقسیم کے سوالات پورے ہند کی تہذیب کو سوال بنایاگیا
لکھا گیا ۔
قراۃ العین
حیدر نے آگ کا دریا کیسے لکھا؟
اس خیال نے
کب جنم لیا؟
گھریلو نشت پر بسنت آنے والی ہے انکی نئی نسل کے
بچوں نے پوچھا یہ بسنت کیاہے وہ ایک دم سے حیران رہ گئی ہندوستان میں اس تہورار
کوخاص طور پر منایا جاتاہے نئ نسل کا اس تہوار نہ آشنا ہونا پھر انہوںنے یہ ناول لکھا یہ
آئیڈیا انکے ذہن میں آٰیا۔
ہندوستانی اور انڈس ویلی کی تہیذیب 1959 آگ کا دریا
پبلش ہوا
47 سے 57 تک جب وہ یہ ناول لکھ رہی تھی ناکام سیاسی
قوتیں بڑے اہم معاملات ہے جو اس کا ڈیزائن اس وقت تیار ہورہاتھا ۔
آزادی کے فورا بعد بیسوں نئے ملک بنا دیئےگئے ۔
آگ دریا 1950 میں ختم ہوجاتاہے۔
سیاسی سماجی ثقافتی شعورنے انکے اس ناول کو چارچاند
لگا دیئے۔
تکنیک نئی تھی ،
آغٖاز ہوتا ہے کہانی آگے چلتی ہے۔ ڈپٹی نذیر سے لیکر ترقی پسند تک سیدھے
سادے ناول ہوا کرتے تھے۔
یہ وہ عہد ہے جس میں انسان اپنی تلاش میں گم ہے۔کھوج
کا عمل جاری ہے۔
اس دور میں جڑوں کی تلاش کا عمل ،تشخص کا عمل ہے، تاریخ
کی دریافت کا عمل بہت بڑا چلینج بن چکاہے جو صدیوں سے اکھٹے رہ رہےتھے اچانک آدھا
خاندان ایدھر آدھا خاندان ادھر رہ گیا۔
اپنی ایک تحریر میں خود قرۃ العین حیدر نے لکھاہےکہ
میں نے یہ ناول اس لیے لکھاہے کہ لوگ مسلمانوں کی
تاریخ کو اور برصغیر کی تاریخ کو محمد بن قاسم سے شروع کرتےہیں۔۔
محقیق کہتےہیں کہ
یہ ناول
بڑاہے یہ ناول مشہور نہیں اسے سمجھنےکےلیے ذہنی وسعت کی ضرورت ہے
کارجہاں دراز ہے سوانح عمری پڑھ کر احساس ہوتاہے وہ
عہد کیسا تھا۔
مارشل لگ گیا تھا مارشل شپ کی سینسر شپ نے انکو آگ
کا دریا لکھنے پر مجبور کیا ۔
یہ ہمیں ہندو کے ساتھ ملا رہی ہے کے الزامات انکے
اوپر لگتے رہے
آگ کےدریا کے بعد احسن فاروقی کا سنگم ناول اس سے
مشابہت رکھتاہواآیا ۔ جومحمد غزنوی سے
شروع ہوتاہے۔
انکی مقبولیت انکے اوپر لگائے گئے الزامات بھی ہیں جس
پروہ واپس انڈٰیاچلی گئی
والدہ کو لیکر علاج کےلیے انگلینڈ چلی گئ تھی اسکے
بعدوہ ہندوستان چلی گئی پھر لوٹ کر نہیں آئی ۔ کہتی تھی کہ میری جائیداد
کےمعاملات ہے
کافی سارے ایوارڈ بھی انکو ملے ہیں۔
ہمارے یہاں سے کچھ نہیں دیا گیا
ہندوستان سے جو ایوارڈ دیئےگئے ان میں ، غالب، پدم شیری ، گیان
پیٹ ،علی گڑھ یونیورسٹی میں وہ پڑھاتی رہی ہے انکو وہاں پر عزت وتکریم پاکستان سے
ذیادہ ملی ہے۔آگ کے دیریا
میں دیویاتوں سے متعلق ذیادہ نہیں جانتالیکن میں
سمجھتاہوں دریا ایک طاقتور مٹیلہ دیوتاہے۔
تنند مزاج ، غصیلہ ، اپنے موسموں اور اپنے غیض و غضب
کا مالک تباہ کن وہ ان چیزوں کی یاد دلاتا رہتاہے۔
جنہیں انسان
بھول جانا چاہتاہے۔
وہ منتظرہے دیکھتاہے اور منتظر ہے،دریا ہمارے اندرہے
سمندر نے ہمیں گھیررکھاہے۔
خاتمہ کہاں ہے بے آواز چیخوں کا ،خزاں میں خاموشی سے
مرجھاتے پھولوں کا ،جو چپ چاپ اپنی
پنھکڑیاں گراتے ہیں۔
جہاز کے بہتےہوئے شکستہ ٹکڑوں کا خاتمہ کہاں ہے۔
لوگ بدل جاتے
ہیں مسکراتے بھی ہے مگر کرب موجود رہتاہے۔
لاشوں اور خس و خاشاککو اپنی موجوںمیں
بہاتے ہوئے دریا کی مانند ہے وقت جو تباہ کن ہے اور قائم بھی رکھتاہے ۔
میں اکثرسوچتاہوں کیا کرشن کا یہی مطلب تھا۔
مستقبل ایک مدہم گیت ہےاور انکے واسطے جو پچھتانے کے
لیے ابھی پیدا نہیں ہوئے۔پچھتاوے کا گل سرخ جو ایسی کتاب کے پیلے اوراق میں رکھاہے
۔
جو کبھی کھولی نہیں گئی۔
یہ لمحہ کرم یا نہہ کرم کانہیں۔
جانو کہ موت کے سمے انسان کا دماغ وجود کے جس نقطے پر
بھی مرکوز ہو محظ ایک کرم ہے۔
جودوسروں کی زندگیوں میں بارآور ہوگا۔
کرم کے پھل کا خیال نہ کرو آگے چلو اور مسافروں اور
ملاحوں تم جو گھاٹ پر اتروگے اور تم جن کے جسم سمندر کے فیصلے سہے گے۔
یا جو کچھ بھی تم پر بیتے گی یہ تمھاری منزل ہے کرشن
نے ارجن سے میدان جنگ میں کہاالوعدہ نہیں بلکہ آگے بڑھو مسافروں۔
جگر مراد آبادکا شعر ہے
یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجیئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جاناہے۔
آگ کا دریاناول کا پہلا سین ہے وہ بہت اہم ہے۔ کیسے
آگ کا دریاہے اور کیسے ڈوب کر جاناہے۔
یہ ناول شعور
کی رو کا عکاس ہے۔شعور کی رو جو ہے وہ ایک خاص نفسیاتی ٹرم ہے۔ جو اس دور سے
مطابقت رکھتی ہے۔جسے فرائیڈ کے
نقط نظر سے تقویت ملی۔ اس میں جو بھی کردار ہے وہ اپنی سوچ میں احساس میں اپنی یاد
میں کس طرح سے سفر کرتے ہیں۔ جو کبھی ماضی میں کبھی حال میں اور کبھی مستقبل میں
جاتےہیں۔اس ناول میں مرکزی کردار بھی سفر کرتا دیکھائی دیتاہے۔
اس ناول میں وقت جو ہےوہ اہم ہے۔اس
طرح سے اس میں پلاٹ سیکنڈری ہوگیاہے ۔
کردار اہم
ہوگیا ہے۔یہ تکنیک پہلی بار اس میں استعمال کی گئ ہے دریا کا حوالہ ہے دریا وقت کی
علامت ہے ۔ عہد وقت کی علامت ہے۔ ایلیٹ کے یہاں بھی جو وقت ہےوہ روایتی ہے ترتیب
ہے۔
وقت جو ہے وہ کردار ہے۔ مرکزی کردار وقت ویلین اور
ہیروہے اور بہتا جاتاہے مختلف کردار گوتم نیلمبر تک وقت ہے
وقت ایک ایسا پہلو ہےلیکن انسان کے اخیتار میں نہیں
ہے وجودیت کا اور وقت کا گہر ا تصورہے
انسانی کرب کو بیان کرتاہے لامتناہی ہے۔ نظم اور
ناول بنیادی منطق وقت ہے۔
اس دور میں دو طرح کا ادب نیشنل ازم اور مسلمان کے
معاملات کو لکھا گیا
اقبال سماج سیاسیت ملت قوم تاریخ پرلکھاہےاپنےلیے یا
فرد کےلیے نہیںلکھا
ترقی پسند انقلاب عوام خود کو ڈسکس کرتےہیں
یورپ تنہائی ، وجودیت ، کے معاملات ہے
قرات ترقی پسند نہں تھی مارسک ازم کےتصور کی بھی نہیں
تھی نفسیاتی معاملات اور وجودیت کے معاملات پر انہوں نےلکھا۔
وجودیت فرد پر مبنی نہیں پوری انسانیت پر مبنی ہے۔
آزادی کیا
ہے جو ہم نے طے کرلیا ہے، وہ ہی آزادی ہے فاتح کیا ہے مفتوح کون ہے۔
انکا جو
دائرہ ہے وہ بہت بڑاہے۔
یورپ میں فرد کی تنہائی بڑھ رہی ہے اسکی بقاء فنا کا
مسئلہ کتنا فرد کا اختیار ہے ریاست میں اس میں وہ کتنا آزاد ہے۔
تاریخی شعور کو اس میں شامل کیاہے وہ وجودیت کے سوال
اٹھاتاہے گوتم اپنی آزادی کےلیے میں کےلیے انکے یہاں یہ سوال ہے؟
ہندوستان کی تہذیب کو کردار بناتاہے پچھلے ڈھائی ہزار
سال اشوکہ چندر گپت موریا سے ڈھائی ہزار سال
ہے جو بنیادی سوال اٹھائے ۔
وقت کی لہر وقت کے اس عظیم شان فرد پتوں کی طرح
لرزتاہے۔
تقسیم کے مسئلے کے بعد اتنا قتل ہورہاہے آزادی کیاہے
آزادی سے کیاملا ہے
سوال اٹھاتی ہیں
۔
انفرادی یا میں کا سوال نہیں گوتم کا سوال چار جگہوں
پر پیش ہوا اس سماج کو پیش کررہاہوں اسکا اظہار کررہاہے پورے سماج کی عکاسی کرتاہے
وہ جو بھی سوال اٹھاتاہے وہ سماج وہ مقدمہ ہندوستان کا لڑ رہی ہے فرد ابل رہاہے
ڈوب رہاہے وہ تنکوں کی طرح بہہ رہاہے۔ وہ پوری تہذیب سماج تاریخ ڈوبتاہے ۔
تمھاراخیال تھا لمحے اپنی جگہ قائم رہتاہے لیکن میں جارہاہوں۔
تاریخی شعورہے اور وجودی سوال کے ساتھ ہے۔ ناول کے
چار حصے ہیں
چندرگپت موریا
چار سو سال قبل مسیح
سنجگوکی مغل
دور کے شروعات پر ختم
ایسٹ انڈٰیا
1930 سے1950 تک بیسوں سالوں تک
کردار نام گوتم نیلمبر،چمپاہیروئن یا ساتھی ہے۔
جس طرح ٹائم کو نہیں تقسیم کیا جاسکتاہے بلکل اسی طرح
تہذیب کوتقسیم نہیں کیا جاسکتا ہے۔جو ہزاروں سالوں سے ایک تہذیب میں شامل ہے تسلسل ہےتہذیب وہی رہتی ہےاس میں کردار بدلتےرہتےہیں۔
ناول کے آخر میں ایسٹ انڈٰیا کمپنی کا ذکر ہے۔
آخری حصے میں کئی کردار ہے چمپہ بھی ہےگوتم بھی ہے
نرمیلا بھی ہے،طلعت ،لاج ، تہمینہ عامر رضا بھی ہےکمال بھی ہے۔یہ گروہ ہے نوجوانوں
لوگوں کا کچھ یونیورسیٹیز میں پڑھتے ہیں۔کالجز میں پڑھتے ہیں یہ آُپس میں تقسیم
ہندکےجو پہلے کے واقعات ہے۔ان پر بحث کررہےہیں۔اور تقسیم ہند کےبعد کی صورتحال جس
میں ذہنی تقسیم ہوتی ہے یہ تقسیم ہند
سےپہلے اور بعد کے حالات کا تجزیہ کرتے ہے ۔جو تقسیم کے زمانے کے المیے تحریک
مسائل کو اجاگر کرتےہیں۔
جو بات ناول میں ڈھائی ہزار سال پہلے چلی تھی۔وہ چلتی
ہے آتی ہے تقسیم کےاوپر۔ہندوستان جو ہے وہ تقسیم ہوگیا۔کچھ خاندان ادھر چلے گئے
کچھ خاندان ایدھر رہ گئے۔کچھ خاندانوں نے جانے سے انکار کردیا۔مسلم لیگی تھی
پاکستان بن گیا نہیں گئے وہ کہنے لگے یہ سارا ہمارا وطن ہے چار کردار کے ذریعے
مسلسل یہ کردار بچھڑتےہیں مشترکہ تہذیب کے زوال کا دور ہے یہ لکیر کھینجی گئی وقت
تہذیب تاریخ تقسیم ہوسکتی ہے۔،وہ لوگ جنہوں نے مشترکہ تحریک کو جنم دیا ۔
احساس کی سطح پر نوجوان سب ایک ساتھ ہے ایشو کی سطح
پر الگ ہے۔ ہائیڈ پارک میں بیٹھے نوجوان بات ہےوجودی سوال سے ۔
کل کے دشمن آج کے ساتھی کل کے ساتھی آج کے خطرناک
ترین دشمن تصور کئے جاتےہیں۔ایشیا کا نقشہ تیزی سےبدل رہاتھا ۔امن کے نعرے لگائے
جارہے تھے۔تیسری جنگ کی تیاری کی جارہی تھی۔کل کے ترقی پسند آج شدت سے رجت پسند
بن چکے تھے۔کسی ویلیو میں کوئی بھی استحکام باقی نہ رہا تھا ۔ہم سب چھپے ہوئے
فاشسٹ ہیں۔ہم سب کے ہاتھ میں مشین گنیں ہیں۔جن کا رخ ہم نے ایک دوسرے کی سمت
کررکھاہے ۔