جب حسین بن منصور حلاج کو سولی چڑھایا گیا تھا تو اس وقت ایک لاکھ کے قریب لوگ وہاں موجود تھے۔
اور وہ ہر سمت دیکھ کر حق حق اور اناالحق کہہ رہے تھے۔
کسی نے کسی سے پوچھا یہ عشق کیا ہے تو اسے جواب ملا کہ آج کل میں تمہیں معلوم ہوجائےگا یہ عشق کیا ہے۔
اسی دن منصور کو سولی چڑھایا گیا بعد میں لاش جلا دی گئی اور انکی کی راکھ کو دریائے دجلہ میں بہا دیاگیا ۔
بعد میں لوگوں کو سمجھ آیا کہ عشق کیا ہے۔
لیکن اس بار کہانی الٹی پڑ گئی۔
عشق کے سفر میں نورین کو سولی چڑھایا گیا ،
نورین پڑھی لکھی تھی یونیورسٹی کی تعلیم سے لیکر وہ حافظ القرآن بھی تھی۔
انسان اور عورت کےحقوق و ہ جانتی تھی۔
اس پر بھی عہد جوانی کا عذاب اترا تھا،
اس نے بھی کسی شخص کو چاہا تھا بہت ، ہماری رسومات ہمارے رواج اسے محبت کرنے سے روک رہے تھے۔
روایتی شادی کے گھر والے خواہش مند ہوئے،
پھر یوں ہوا کہ آنکھوں پر پٹی بندھی اور کسی ظالم نے قرآن سینے میں رکھنی والی لڑکی اور محبت میں سموئے ہوئے ایک جسم ایک روح کو ہمیشہ کےلیے موت کی گھاٹ اتاردیا ۔
شاید اسے مار کر انہیں وہ تسکین مل گئی ہو جس کے لیے وہ اتنے عرصے سے نورین کی بات نہیں مان رہےتھے۔
اسے روکا اور ٹوکا جاتا تھا ۔
ہم سب پڑھے لکھے ہونے کی اداکاری کرتےہیں۔
ہم سب کے اندر ایک جاہل فرسودہ انسان بیٹھا ہے جو ہم سے جب جی چاہتا ہے اس کا غلط کا کام کرواتاہے۔
بھلا ہمارے معاشرے میں یہ رواج کیوں ہے کہ ایک فرد دوسرے کی مرضی سے اپنی زندگی گزارے۔ اگر انکار کیا بغاوت کی تو موت اسکا مقدر ہوگی۔
سندھی رسومات اور رواج اتنے برے تو نہیں سامی میمن نے اپنی فیس بک وال پر لکھاتھاکہ سندھی رومانوی داستانوں کا اگر جائزہ لیا جائےتو
سندھی سماج میں سورٹھ رائے ڈیاچ کے ساتھ تخت پر بیٹھا کرتی تھی ، جس سے معلوم ہوتاہے اس وقت بھی عورت اور مرد کی برابری کا خیال رکھا جاتا تھا ۔سھنی شادی کرنے کے بعد میھار سے عشق کرنے پر اسے کاری کرکے نہیں مارا گیا انسانی جذبوں کا احترام کیا جاتا تھا ۔ ماروی کو اغوا کرنے کے بعد بھی اس کی جبری شادی نہیں کرائی گئی اس کے علاوہ سندھی داستان مومل رانو میں،مومل کو سیتل رائے کے روپ میں سومل کے ساتھ سوتا دیکھ کر اسے قتل نہیں کیاگیا ۔ شق کی بنیاد پر کاروکاری سے انکار کیا گیا ۔ سسئ نے اکیلے بھبھور سے سفرکیا راستے میں کسی مرد نے اسے تنگ نہیں کیا مطلب اس حد تک سماجی تحفظ خواتین کو ہمارے معاشرے میں دیا جاتارہاہے۔
اصل میں سندھ کی اصل ثقافت وہ ہی ہے جو شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری میں ہے۔
اناء، ضد ، بحث ، لڑائی تکرار، قبائلی جھگڑے ، سماج کیا سوچے گا، لوگ کیا کہے گے ، ہمارے خاندان میں ایسا نہیں ہوتا ، اس سے پہلے ہمارے خاندان میں ایسا کسی نے نہیں کیا ۔ بچوں کو نوجوانوں کو انکے وقت کے حساب سے دیکھیں انہیں اس خوبصورت دنیا میں یہ احساس دلائے کہ یہ زندگی آپ کی ہے اسے آپ اپنی مرضی سے رشتوں کا احترام کرتےہوئے گزاریں نہ کہ آپکی ذاتی انا کی وہ بھینٹ چڑھتےرہے،
۔ کیا کسی کی جان لینے کے بعد ذہنی ، دلی ، روحانی سکون مل جاتاہے جو نورین فاطمہ کے ساتھ ہوا کسی بیٹی کے ساتھ نہ ہو۔
بس یہ سوچ کر بہت دکھ
ہوتاہے جو خواب منصور اور نورین نے ساتھ دیکھے تھے انکی تکمیل نہ ہوسکی۔ وہ
یونیورسٹی کے دنوں میں کئے گئے وعدے ہمیشہ کے لیے ادھورے رہ گئے، نکاح میں کئے گئے وفا کے ارادے راستے میں ٹوٹ گئے بکھر گئے،
بقول شاعر
ہم کوئی جگ سے نرالے تو نہیں ہیں لوگو!!
ہم بھی اس وقت میں جیتے ہیں جہاں
تتلیاں، خواب ہیں اور پھول
شہر ہم کو بھی مقدر میں ملا ہے جس میں
دھڑکنیں گم ہیں
اور شور سے ہو کا عالم
ہم بھی اس شہر کے مکین ہیں کہ جہاں
وقت کے کاٹتے ہی بجھ جاتی ہے اس عمر کی لو
ایک بے مصرف و گمنام ارادے کی طرح
ہم بھی لوگوں کی طرح ہیں کہ ہمیں
دکھ چھپانا بھی ہے اور ہنسنا سر بازار بھی ہے
ہم پر بھی عہد جوانی کا عذاب اترا ہے
ہم نے بھی دور کسی شہر میں
بستے ہوئے، ہنستے ہوئے
اک شخص کو چاہا ہے بہت
دھڑکنیں
آنکھ کا آنسو تو نہیں ہیں لیکن
ہم نے گن گن کے !!
گنوائی ہیں کسی شخص کے نام
ان ہواؤں کو صدا جانا ہے
جیسے اس شہر سے پیغام وفا لائی ہیں
ہم!!!
نرالے ہی تو نهیں
جس نے اس غم کو غم جاں سا بنا رکھا ہے
عمر جس میں نہ کوئی آس
نہ آنسو، نہ ہنسی
ہم نے اس عمر کا
افسانہ بنا رکھا ہے......!!