میرا نام کرن خان ہے میں جیو نیوز ٹیلی ویژن سے وابستہ ہوں مجھے صحافت میں تقریبا 16سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے۔میں اس شعبے میں 2007میں آئی تھی۔
بدھ کا دن تھا اس دن میں بہت مصروف رہی تھی،محرم الحرام کے دن چل رہے تھے۔اس وقت گورنر سندھ عشرت العباد تھے اور گورنر ہائوس میں علماکرام کا اجلاس تھا وہاں سے میں واپس ہی آرہی تھی۔اس دن موڈ اچھا تھا تو نیوز روم کے ساتھیوں کےلیے سموسے اور جلیبی لیکر گئی تھی۔ آفس میں علما کانفرنس پر پیکج تیارہی کررہی تھی ۔
ہم سب ابھی سموسے ہی کھا رہے تھے کہ اچانک اطلاع ملی کہ اورنگی ٹائون نمبر پانچ میں دھماکا ہوا ہے امام بارگاہ کے سامنے تو مجھے بیورو چیف نے کہاکہ کرن آپ جو ہے وہ عباسی شہید اسپتال چلی جائےجہاں پر زخمیوں اور ڈیڈ باڈیز کو لایا جارہاہے۔میں آفس سے نکل گئی ابھی راستے میں ہی تھی کہ کال آئی کہ جو ہمارے کرائم رپورٹر ہے وہ رش اور ٹریفک میں کہیں پھنس گئے ہیں اور وہ بر وقت اسپاٹ پر پہنچ نہیں پائیں گے تو آپ وہاں دھماکے والے جگہ پر چلی جائیں۔
تو اس دن میں ڈائریکٹ اسپاٹ پر پہنچی۔ یہ دھماکا 21 نومبر 2012 کو ہوا تھا
وہ اورنگی ٹائون پانچ نمبر کی امام بارگاہ تھی جس کے سامنے رکشے کے اندر دھماکاہوا تھا ۔
اس دھماکے میں پانچ چھ لوگ جاں بحق ہوگئے تھے۔
بڑا دھماکا تھا ۔
خیرہم وہاں پہنچے ساری ٹیمز پہنچ گئیں۔
ریسکیو ، رینجرز پولیس والوں نے کارڈن آف کرلیا ۔
چوہدری اسلم ،راجہ عمر خطاب سی ٹی ڈی ،ایس آئی یو سارے یونٹس جتنے بھی تھے وہ آئے انہوں نے چیک کیا پھر انہوں نے وہ ایریا کورڈن آف کرلیا ۔
دوایریاز کی کلیئرنس ہوچکی تھی۔
ابھی ہم وہی پر موجود تھے میں فون پر ہیڈ آفس لاہور سے بات کررہی تھی کیونکہ دنیانیوز کا ہیڈ آفس لاہور میں ہے اور اس وقت میں دنیانیوز میں کام کررہی تھی۔
مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے ایک دکان کے سامنے بیرکس تھی ہم اس پر چڑھ چڑھ کر واپس آرہے تھے۔اس کےبعد وہ ایریا کورڈن آف کیا تھا ۔
چونکہ میں فون پر تھی مجھے اندازہ نہیں ہوا ۔ میں اس مقام کے بہت قریب آچکی تھی اچانک سے ایک اوردھماکا ہوا اس لمحے اس وقت مجھے صرف دھماکے کی آواز آئی۔
اس کے بعد کالے دھوئے کی کوئی چیزنظر آئی تومیں نے صرف کلمہ پڑھا تھا ۔
اس وقت اس لمحے میرے ذہن میں میری فیملی تھی اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اب وقت آگیا ہے مجھے جانا ہوگا ۔
اورمیں بے ہوش ہوگئی۔
اس حادثے سے میں نے یہ سیکھا کہ ہم اپنی سیفٹی کا خیال نہیں رکھتے جو کہ ہمیں کرنا چاہیے نا گہانی کو نہیں روکا جاسکتا ۔بہتر یہی ہے جو ایریا کورڈن آف ہو یا سیکیورٹی کے حصار میں ہو۔ کوشش کریں اس سے دور ہی رہے۔اور کلینرنس کے بعد بھی کبھی یہ نہ سمجھے وہ ٹھیک ہے یا صحیح ہے میں نے یہ بھی جانا جب آپ خبر دینے جارہے ہوتے ہیں تو آپ نے خبر دینی ہے آپ کو خبر بننا نہیں ہے۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹر ود آؤٹ بارڈر (آر ایس ایف)کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 20 برس کے دوران دنیا بھر میں 16ہزار 68 صحافی دوران ڈیوٹی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سالانہ صحافیوں کے مرنے کی تعداد اوسط 80 رہی ۔
سمیرا خان صحافت کے شعبے سے گزشتہ 19 سال سے وابستہ ہیں ان دنوں سماء ٹیلی ویژن کے ساتھ کام کررہی ہیں ۔
جیسے ہی کوئی واقعہ رونما ہوتاہے، ادارے کی سب سے بڑی ڈیمانڈ یہ ہوتی ہےکہ ہم سب سے پہلے رہے،کسی اور چینل پر اگر خبر نشر ہوجائے تو ان کا سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہےکہ یہ خبر ہمارے پاس کیوں نہیں۔ یا آپ کے پاس کیوں نہیں ہے اور اس میں انکو اس چیز سے کوئی سروکار نہیں ہوتاہے کہ کیا اس خبر کی کلیکشن ہمارےلیے ممکن تھی کہ نہیں۔ ریسورسسز تھے یا نہیں تھے۔
بس پہلا سوال یہ ہوتاہے کہ ہمارے پاس کیوں نہیں ہے؟ جب اس طرح کا واقعہ رونما ہوتاہے تو سب سے پہلے وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے آپ دھماکے والی جگہ پرپہنچے۔
ادارے اگر یہ کہتےہیں کہ اس میں ہمارا کوئی پریشر نہیں ہوتاہے ۔
تو بلکل جھوٹ ہے نیوز رومز میں ڈائریکٹر، کنٹرولرز ، ایگزیکٹو پروڈیوسرز سب سے پہلا پریشر یہ ہوتاہے رپورٹر پر کہ کسی بھی طریقے سے کرکے ایکسکلوسو جگہ پر آپ نے پہنچنا ہے۔
چاہے وہاں پر بلاسٹ ہو دوسرا دھماکاہو کچھ بھی ہو آپ نےاس جگہ پر موجود ہونا ہےاور کوشش کریں سب سے پہلی لائیو ہٹ آپ کی ہو یا visuals آپ کےہوں۔
ہنگامی صورتحال میں بہت ساری مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ یہ تجربہ کوئی ایک سال کا نہیں میرا 19 سال کا تجربہ ہے۔فیلڈ میں لائف تھریٹ سے لیکر موب اٹیک جلسے جلوسوں میں لوگوں کا پتھرائو،آنسو گیس کی شیلنگ پولیس کا نا مناسب رویہ ، سیکیورٹی ایجنسیز کا فوری طور پر اس مقام کو خالی کرنےکا ایک حکم بھی آتاہے تو اس طرح کے بہت سارے پریشرز ہوتے ہیں۔
نیوز روم میں ایک استحصال کرنے والی پوری فوج ہوتی ہے۔ اسے آپ ڈیسک بھی کہہ سکتے ہیں۔ڈیسک کے لوگ اس میں جس میں ٹرانسمیشن کو آن ایئر کرنےوالے لوگ شامل ہوتےہیں۔پھر اس کے اندر سب سے بڑا فیکٹر یہ آجاتاہے کہ اگر ڈیسک پر کوئی سرپھرا بندہ بیٹھا ہواہے یا پروڈیوسر کوئی سر پھرا بیٹھاہوا ہے تو میں نے دیکھاہےکہ اسے خواتین سے بھی بات کرنے کی تمیزنہیں ہوتی ہے۔
ادارے کمرشل بنیادوں پر کھولے جاتےہیں کوئی نظریات یا سوچ کے تحت نہیں اس میں سرمایہ دار نے جو پیسے لگائے ہوتےہیں وہ ان سے ذیادہ کمانے کے چکر میں ہوتےہیں ۔ اس لیے انکا سیفٹی جنرل ازم پر دھیان کم بلکہ ہوتا ہی نہیں ہے۔
سیفٹی کے لیے ادارے کی جانب سے اگر بہتر ہدایات نہیں ملتی ہیں پھر بھی ہمیں خود اپنی حفاظت کرنی ہوگی۔ دھماکے کے مقام سے دور رہ کر کوریج کی جاسکتی ہے۔ اپنے کیمرہ مین اور ٹیم کو ان سے دور رکھا جاسکتاہے جب تک صورتحال کنٹرول میں نہیں آتی تب تک اس مقام سے فاصلے سے رہا جاسکتاہے اگر آپ ادارے کے دیئے گئے پریشر کو برداشت کرسکتےہیں۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس آئی ایف جےکی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 میں 5 پاکستانی صحافیوں سمیت 68 صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل کردیے گئے۔
ہم نیوز اسلام آباد کے اسائنمنٹ ہیڈ اور سینئر پروڈیوسر غضنفر عباس کہتے ہیں کہ کوئی بھی واقعہ جب رونما ہوتاہے تو بیورو کو آگاہ کیا جاتاہے کہ خبر فلاں چینل پر چل رہی ہے ،،، چیک کرلیں
خوفناک ،اذیت ناک ،فوٹیجز اور مناظر ہم نہیں دکھائیں گے کوئی تصویر لے سکتے ہیں ، اناؤسمنٹ اور نوٹ لکھ کر آن ائر ہونگے’’ہم نیوز اس سفاکانہ واردات سے پہلے کے مناظر آن ایئر نہیں کر رہا‘‘ کیونکہ مختلف عمر اور مختلف سوچ کے افراد پر ان مناظر کاممکنہ نفسیاتی اور سماجی ادراک الگ الگ ہوسکتا ہے ۔
پولیس کی “ڈونٹ کراس لائن “ میں اگر میڈیا اندر نہیں جاسکتا تو ہر گز اندر نہ جائیں بلکل یہ دیکھنے والوں کو بتائیں کہ ہم اس وجہ سے آگے نہیں جارہے کیونکہ یہ پولیس نے ممنوعہ قرار دے دیا ہے نہ ہی امدادی کاموں میں مصروف ٹیموں سے بات کرنے کی فوری کوشش کریں ۔
اپنے آپ اور اپنی ٹیم کو بالکل محفوظ رکھ کر ویڈیو بنائیں اور رپورٹنگ کریں ۔
مائیک کسی کے منہ میں گھسیڑنے کی کوشش نہ کریں ۔
دور سے ویڈیو بنائیں ،، دھماکے کی جگہ کے قریب اس وقت نہ جائیں جب تک وہ جگہ کلیئر قرار دے دی گئی ہو۔کسی بھی قسم کی امدادی کارروائی میں ہر گز رکاوٹ نہ بنیں۔
حادثے والی جگہ پر بھیجنے سے پہلے ٹیم کو آگاہ کیا جاتاہے کہ اپنی حفاظت کو مد نظر رکھیں ،،وارننگ ،، دھماکے ، فائرنگ یا آگ یا اس طرح کی واقعات میں بالکل رسک نہ لیں۔
پولیس افسر سہائی عزیز کہتی ہیں کہ صحافی حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے ہیں
یہ صحافی کی پختگی، تربیت اور تجربے پر منحصر ہے۔اس کے علاوہ بہت سے صحافیوں کو اخلاقی ضابطے کا علم نہیں ہے کیونکہ انہیں اس بارے میں کبھی نہیں بتایا جاتا،
اور نیوز ڈیسک کی طرف سے فیلڈ رپورٹر کو ایک خصوصی پریشر دیا جاتاہےکہ ایکسکلوسو حاصل کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے ۔
جو اسے غیر ضروری کام کرنے پر مجبور کرتا ہے، جیسے زخمیوں کا انٹرویو لینا، سوگوار خاندانوں سے عجیب و غریب سوالات کرنا، عصمت دری/ہراساں کیے جانے والے متاثرین کی شناخت کم کرنا اور ذاتی رپورٹ کے ساتھ الجھنا شامل ہے۔
جرائم کا منظر راہگیروں اور میڈیا سے بری طرح آلودہ ہوتاہے۔
صبا خان کہتی ہیں کہ اب تک بم دھماکے یا کوئی ہنگامی ایونٹ کرتے ہوئے ہمیں کوئی سیفٹی کٹ فراہم نہیں کی گئی نہ ہی کوئی تربیت دی گئی ہےاسے کیسے کور کرناہے۔اداروں کو چاہیے جب اپنے رپوٹروں کو ایونٹ کور کرنےبھیجے تو اس کو تمام سہولیات دے دینی چاہیے رپورٹر واحد بندہ ہوتاہے جو ادارے کے ہی کام سے نکلا ہوتاہے اور بروقت خبر دینے کی کوشش میں ہمیشہ مصروف رہتاہے۔ہنگامی صورتحال ،ٹارگٹ کلنگ ، بم دھماکا ، احتجاج میں بلٹ پروف جیکٹس ، ماسک وغیرہ فراہم کرکے دینا چاہیے تاکہ شیلنگ وغیرہ سےبچاجاسکے اور ہیلمنٹ احتیاطی طورپر دے دینی چاہیےجب کوئی پتھرائویا لاٹھی چارج ہوجائے تو کم سے کم آپ محفوظ رہے۔
ظاہر سی بات ہے بم دھماکے میں ڈر تو لگتا ہی ہے۔ہماری بھی فیملی ہے ہم بھی اپنی فیملی کےلیے گھر سے باہر نکلتےہیں۔لیکن ہنگامہ آرائی تو کور ہوجاتی ہے لیکن بم دھماکے میں تھوڑا سا ہوتاہے کہ اگر ہمیں کچھ ہوگیا تو فیملی کون دیکھے گا ،میرا خیال ہمارے ادارے میں یا کسی بھی ادارے میں ایسی سیفٹی کٹ وغیرہ نہیں دی جاتی لیکن ہونی چاہیے۔
سی پی این ای کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں صحافیوں، میڈیا ملازمین اور میڈیا تنظیموں کو میڈیا کے خلاف عدم برداشت اور تعصب کے نتیجے میں میڈیا مخالف سرگرمیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ 28 سے زائد واقعات میں 13 صحافیوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا، 2 صحافیوں کے گھرانوں پر حملے کیے گئے، 10 صحافیوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے، 3 خواتین صحافیوں کو ہراساں کیا گیا۔ سندھ میں سیلاب اور متاثرین کے بارے میں حقائق پر مبنی رپورٹنگ کے معاوضے پر کیٹی بندر کے صحافی الیاس سمو کے ساتھ سندھ کے مختلف علاقوں سے متعدد صحافیوں کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔