صوبہ سندھ اپنی منفرد تہذیب، ثقافت اور تاریخ کے حوالے سے اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے۔
یہ واحد سرزمین ہے جہاں مہمان نوازی اور انسان دوستی کا ہمیشہ سے بہتر ثبوت دیا گیا ۔ 1947 سے پہلے سے اب تک کسی بھی ہنگامی صورتحال میں یہاں کے مکین مہمانوں کے لیے دسترخوان کی جگہ پر اپنا دل بچھا دیتے ہیں۔
یہی وہ خطہ ہے جہاں آپ کو صوفی ازم کے رنگ ملے گے ۔ یہ رنگ سندھ کو دنیا سے ممتاز رکھتے ہیں۔ اپنی خوبصورت ثقافت میل جول اور پرانی رسم ورواج کی وجہ سے سندھ کوآج بھی بہتر خطہ زمین تصور کیا جاتاہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ سکھر میں ٹرین حادثہ پیش آئے۔
یابے نظیر بھٹو جیسی لیڈر کو شہید کردیا گیا ہو ہرطرف جلائو گھیرائو والی صورتحال ہو ۔
اس صورتحال میں بھی سندھ کے باسی مسافروں کو ٹرینوں سے اتار کراپنے گھروں میں پناہ دیتے ہیں ۔اپنے گھر لیے جاتے ہیں انکی حفاظت کرتے ہیں ان سے انیست اور محبت کا رشتہ ہمیشہ سے برقرار رکھا گیا۔
کہتے ہیں کہ دیہات میں اب بھی انسانیت قائم ہے وہاں روایات بھی قائم ہے لوگ اپنے بڑوں کے کئے گئے کام اور رسم و رواج کو نسل در نسل چلاتے آرہے ہیں۔لیکن؟؟؟
ہندو تاجروں کو آئے روز اغوا کیا جاتاہے بھاری رقم وصول کی جاتی ہے اس کے بعد انہیں رہاکیا جاتاہے۔
کندھ کوٹ ، کشمور پر ہندو برادری کا احتجاج میرے خیالات کو یکسرتبدیل کر کے رکھ دیتا ہے۔
ہندو یہاں کی مستقل آبادی ہے یہاں کے وارث ہے ۔ اس خطہ میں تعلیم ، ترقی اور تبدیلی کے حوالے سے انکا اعلیٰ کردار رہا جیسے کسی اور شہری کا ۔
پھر یہ جنگل راج کیوں؟ گوٹھ کا وڈیرہ پہلے تو اتنا ظالم نہ تھا، قبیلے ادب لحاظ کی وجہ سے جانے پہنچانے جاتے ہیں۔
ایک دوسرے کے قتل وغارت کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔
کیا سندھ بدل گیا ہے لوگ بدل گئے ہیں ، خیالات بدل گئے ہیں۔ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہے پھر یہ اندھیر نگری کیوں؟
محنت کرنے والے ایمانداری سے کام کرنے والوں کو اس قدر پریشان کیا جائےگا کہ وہ شہر صوبہ پھر آخر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجائے۔
سوائے سندھ کےقوم پرست رہنمائوں کے کسی نے اس پر لب کشائی نہیں کی ۔
کیا سب کی عقل پر تالے پڑ گئےہیں۔ انسانیت ختم ہوکر رہ گئی ۔ عورتیں بچے بوڑھے جوان سب ہی تو سراپا احتجاج ہے پھر سندھ میں اتنی طویل خاموشی کیوں؟