اسلام آباد، مجاہد خٹک
میں اس وقت بچہ تھا اور
اسکول میں پڑھ رہا تھا جب میرے بھائی نے بیرون ملک سے ایک خوبصورت ریڈیو بھیجا۔ یہ
ایک بندر کی شکل کا چھوٹا سا ریڈیو تھا جس کے کان بٹنوں کا کام کرتے تھے۔ میں اسے
دیکھتے ہی مسحور ہو گیا اور اس انوکھے پرزے کو سینے سے لگائے پورے گھر میں گھومنے
لگا۔ اس وقت روایتی شکل کے ریڈیو گھروں میں ہوا کرتے تھے، پہلی بار ایک مختلف چیز
دیکھی تھی جس کی وجہ سے میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ میں بیتابی سے منتظر تھا کہ
کوئی سیل لے آئے اور پھر یہ ننھا منا سا کھلونا اپنی دلکش آوازوں سے میرے کانوں
میں رس گھولنے لگے۔
ہمارے ہمسائے میں ایک بہت
امیر کبیر خاندان رہتا تھا جن کے ساتھ ہمارے بہت قریبی گھریلو تعلقات تھے۔ ہوا یوں
کہ ان کی لڑکی کو وہ ریڈیو پسند آ گیا اور انہوں نے اسے مانگ لیا۔ گھر والوں نے
میری نظروں کے سامنے بخوشی اسے ہمسائیوں کے حوالے کر دیا۔ کچھ بولنے یا شکایت کرنے
کا رواج نہیں تھا اس لیے خون کے آنسو دل پر گرتے رہے اور میں خاموش بیٹھا رہا۔
اس کے بعد زندگی میں بے
شمار کھلونے اور تحائف ملے۔ ایسی چیزیں بھی ملیں جن کے خواب دیکھا کرتا تھا اور
طویل عرصے بعد انہیں خریدنے کے قابل ہوا مگر ان میں سے کوئی بھی کھلونا، کوئی بھی
تحفہ اور کوئی بھی خرید کی گئی چیز یاد نہیں ہے مگر بچپن میں جو کھلونا میرے
ہاتھوں سے چھن گیا تھا اس کا دکھ آج بھی یاد ہے، اس کی شکل تمام عمر کے لیے دل پر
نقش ہو گئی ہے۔
کیا یہ عجیب بات نہیں ہے
کہ ناکام محبتیں ہمیشہ کے لیے دل کے کسی کونے میں موجود رہتی ہیں، ماضی جتنا بھی
برا ہو، پرکشش رہتا ہے کیونکہ وہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے اور اسے واپس نہیں
لایا جا سکتا، ماں باپ کی محبتوں کی بارش میں نہاتے ہوئے بھی ہم ان سے ہر قسم کے
شکوے پالتے رہتے ہیں مگر جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو ان کی یاد کے
بادلوں سے ہمارے آنسوؤں کی دائمی رم جھم جاری رہتی ہے۔ اسی طرح جو کھلونے بچپن میں
نہ ملے ہوں وہ ایک پرملال داغ کی صورت روح سے چمٹ جاتے ہیں۔
اس موضوع پر بہت سوچا ہے
اور خود سے کئی سوالات پوچھے ہیں۔ کیا خوشی ایک سطحی اور لمحاتی احساس ہے جو اپنا
کوئی بھی نقش چھوڑے بغیر لمحوں میں تحلیل ہو جاتا ہے؟ کیا دکھ اور محرومی گہرے اور
پائیدار جذبے ہیں؟ کیا ایک دکھ کے بدلے ڈھیروں خوشیاں بھی مل جائیں پھر بھی اس کا
خلا نہیں پر کر سکتیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ دکھ اور محرومی ہماری ذات کے ریشوں میں
سرایت کر کے ہمیشہ اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔
شاید یہ بھی قدرت کے
گرینڈ ڈیزائن کا حصہ ہے اور ہماری ذات کے سافٹ ویئر میں رکھ دیا گیا ہے کہ ہم
ناموجود کی حسرت میں گھلتے رہیں اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے رہیں۔ زندگانی
کے سفر میں محرومیاں ہمیں ایک کے بعد دوسری منزل مارتے رہنے پر مجبور کرتی رہتی
ہیں۔ کیا معلوم اسی وجہ سے انسان نے غاروں کے دور سے خلا تک کا سفر طے کیا ہو۔
ایلن مسک کو دنیا کی ہر
نعمت میسر ہے مگر اس کی بے چین روح ایک خواب کی تکمیل کر کے دوسرے کی تعبیر کے
پیچھے نکل پڑتی ہے۔ کیا اس کے پیچھے بچپن کی محرومیاں ہیں یا پھر قدرت کچھ لوگوں
میں خواب دیکھنے اور انہیں پانے کی لگن زیادہ مقدار میں ڈال دیتی ہے اور پھر یہی
لوگ انسانیت کے بڑے محسن بن جاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان غاروں میں ہی
مقید رہتا اور اگر جدید دور تک پہنچ بھی پاتا تو اس کرہ ارض کی محدود فضاؤں میں ہی
خود کو مقید رکھتا۔ مگر ایلن مسک جیسے کئی لوگ اب مریخ پر انسانی بستیاں بسانے پر
مصر ہیں اور اپنا عیش و آرام چھوڑ کر اسے حقیقت میں بدلنے میں مصروف ہیں۔
ان تمام معاملات پر سوچتے
ہوئے آخر میں یہ خیال آتا ہے کہ مجھ جیسے لوگ اربوں کی تعداد میں موجود ہیں جو
بچپن کے کھلونوں کی یاد میں گھلتے رہتے ہیں اور ناکام محبتوں کے غم میں بیقرار
رہتے ہیں مگر اپنے تخیل کی بنجر وادیوں میں خوابوں کے خوشنما پھول اگانے پر تیار
نہیں ہوتے۔ ہماری محرومیوں کی داستان بھی بہت طویل ہے اس میں حقیقی کھلونے بھی ہیں
اور نظریاتی ملال بھی شامل ہیں جنہوں نے ہمیں جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔
ہمیں اپنے بچپن کے ریڈیو
کی یاد سے فرصت ہی نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ خواب اگانے کے لیے میسر دھرتی پر فقط
محرومیاں اور حسرتیں بکھری پڑی ہیں، شاید تمام عمر ایک اوسط زندگی گزار کر اور اس
دنیا میں اپنا کوئی نقش چھوڑے بغیر رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہ المیہ بطور ایک فرد کے
بھی ہے، ایک قوم کی حیثیت سے بھی ہے اور ایک امتی کے حوالے سے بھی ہے۔
(پرانی یادیں)