اسلام آباد،مجاہد خٹک
جاگیرداری نظام میں
خواتین گھر سے باہر نکلتی تھیں، وہ فصلوں میں کام کرتی تھیں اور گھر بھی سنبھالتی
تھیں، آج بھی کپاس کی چنائی زیادہ تر علاقوں میں خواتین کے ذمہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ
مویشیوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں۔ یہ رواج کئی دیہاتوں میں ابھی تک برقرار ہے۔
البتہ جب فصل کی فروخت کا
وقت آتا تھا تو وہاں خواتین کا کردار ختم ہو جاتا اور مرد ہی خرید و فروخت کا کام
کیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے خاتون دہرا کام کرنے کے باوجود معاشی خودمختاری سے
محروم تھی۔ یوں اس کی حیثیت ہمیشہ کمتر ہی رہی۔
جاگیردارانہ معاشرہ ملکیت
کی نفسیاتی اساس پر کھڑا تھا جس میں زن اور زمین اپنی معاشی اہمیت کی وجہ سے
ترجیحات میں سرفہرست تھے۔ زمین کی ملکیت بھی اتنی ہی اہم تھی جتنی عورت کی ملکیت۔
اس سے کچھ کم حیثیت مویشیوں کی تھی جن کی حفاظت اسی مستعدی سے کی جاتی تھی جس کا
مظاہرہ عورت اور زمین کے معاملے میں کیا جاتا تھا۔ اس احساس ملکیت کی بنیادیں
بہرحال معیشت سے جڑی تھیں کیونکہ زمین، عورت اور مویشی مالی طور پر سودمند تھیں۔
آج بھی ایسے واقعات میڈیا
میں آتے رہتے ہیں جن میں خواتین کی شادی اس لیے نہیں کی جاتی کہ زمین تقسیم نہ ہو
اور ایک ہی خاندان تک محدود رہے۔ غیرت کا جذبہ بھی ملکیت کے احساس سے جڑا ہے۔ جب
بھی یہ احساس کمزور پڑے گا، عورت کے معاملے میں غیرت بھی کمزور پڑ جائے گی۔ اس کے
مظاہر شہروں میں واضح طور پر نظر آ رہے ہیں جہاں خواتین کی پسند کی شادی برداشت کر
لی جاتی ہے۔
اب شہروں میں جاگیرداری
نظام ختم ہو چکا ہے اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام لے چکا ہے۔ خواتین اب بھی
گھر سے باہر جا کر کام کرتی ہیں مگر ایک فرق یہ پڑا ہے کہ تنخواہ ان کے ذاتی
اکاؤنٹ میں آتی ہے یا ان کے ہاتھ پر رکھ دی جاتی ہے۔ اگر وہ کاروبار کرتی ہیں تو
اس کا نفع بھی انہی کو ملتا ہے۔ اب ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی خاتون کسی ادارے
میں ملازمت کرے اور اس کی تنخواہ ہر ماہ اس کے والد یا شوہر کو دے دی جائے۔
اس کی وجہ سے خواتین کے
پاس وہ خودمختاری آ گئی ہے جو جاگیردارانہ نظام میں مفقود تھی۔
سرمایہ دارانہ نطام جہاں
بھی جڑ پکڑتا ہے وہاں غیرت کا تصور مٹ جاتا ہے، خواتین کو مساوی حقوق دینے کا تصور
مضبوط ہو جاتا ہے، مرد کی حاکمیت کمزور پڑ جاتی ہے اور عورت اور مرد کا رشتہ نئی
بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔
جن معاشروں میں کئی
دہائیوں سے سرمایہ دارانہ نظام مضبوط ہو چکا ہے وہاں عورت کے کنوار پن کی اہمیت
بھی اسی طرح ختم ہو چکی ہے جیسے جاگیردارانہ معاشرے میں مرد کے کنوارہ ہونے کی
کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اس کی وجہ بھی احساس ملکیت کا خاتمہ ہے جو سرمایہ دارانہ
نظام کا خاصہ ہے۔
مغربی معاشرے میں سرمایہ
دارانہ نظام طویل عرصے سے موجود ہے جس کی وجہ سے وہاں کی عورت بہت حد تک خودمختار
ہو چکی ہے۔ مشرق کے جن علاقوں میں یہ نظام پھیل رہا ہے وہاں خاندانی نظام اور عورت
کے کمتر ہونے کا تصور بھی کمزور پڑ رہا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا لازمی حصہ
ہے۔
ہمارا معاشرہ ایک معاشی
نظام سے دوسرے معاشی نظام کی جانب سفر کر رہا ہے جس کی وجہ سے افراتفری پھیلی ہوئی
ہے۔ کہیں جاگیردارانہ روایات بظاہر مستحکم مگر اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہیں، کسی
جگہ مکمل سرمایہ دارانہ اخلاقیات قائم ہو چکی ہے، مڈل کلاس جاگیردارانہ روایات کو
برقرار رکھتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے فوائد حاصل کرنے کی بے سود کشمکش میں
مبتلا نظر آتی ہے۔
تاریخ کا دھارا کوئی بھی
سماج نہیں روک سکتا۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود اس وقت
پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، اس کا رستہ روکنا ناممکن ہے۔ وقت کا پہیہ واپس لوٹا کر
جاگیردارانہ نطام میں بھی نہیں جایا جا سکتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کا جو بھی متبادل
سامنے آئے گا، اس میں بھی عورت کی خودمختاری دبائی نہیں جا سکے گی۔
اس لیے جو لوگ اس سیلاب
کے سامنے بند باندھنے کی خواہش رکھتے ہیں، انہیں آخرکار مایوسی ہی ہو گی۔ عورت
بہرحال آزاد ہو کر رہے گی، اس آزادی کے جو بھی منفی نتائج ہیں، وہ بھی بھگتنے پڑیں
گے اور اس کے جو مثبت نتائج ہیں ان سے بھی استفادہ حاصل کیا جا سکے گا۔
خاندانی نظام بھی اب
غیرضروری ہو چکا ہے، یہ بھی اگلی ایک دو نسلوں تک مٹ جائے گا اور اس کی جگہ
نیوکلئیر فیملی لے گی۔ ساس بہو کے جھگڑوں پر مبنی ڈرامے دو تین دہائیوں بعد مزاحیہ
ڈرامے بن جائیں گے کیونکہ سماج میں یہ مسئلہ ہی ختم ہو چکا ہو گا۔
کیا عورت کو آزاد ہونا
چاہیئے؟ اب یہ سوال ہی غیرضروری ہو چکا ہے۔