شادی کہاں کرنی چاہیے


شادی کہاں کرنی چاہیے

 کراچی ، عمران

 

حیدر آباد میں شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی قرۃ العین بلوچ معاشرےکےلیے ان گنت سوال چھوڑ گئی، چاربچوں کی ماں کو اس قدر بہمانہ طریقے سے قتل کیا گیا کہ جس پر آج بھی تمام انسانیت شرم سارہے، ہم کس قدر فرسودہ معاشرے کا حصہ ہیں جس میں اس قدر لوگ نفرت کرتےہیں ایک دوسرے سے ،مجھے یاد ہے بھارتی رائٹر جاوید اختر سے کسی نے شاعری سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا تھاکہ جس نے بھی دنیا میں محبت کی ہے اس نے شاعری کی ہے باقی جس نے بھی نفرت کی ہے اس کی انتہا تشدد ہے ہاں نفرت کرنے والوں نےحکومت ضرور کی ہے لیکن شاعری نہیں کی ۔کامیاب شادی کا راز جاننے کی جب لوگوں نے کوشش کی تو انہوں  نے تفصیلی فلموں کا حوالہ دے کر سمجھایا کہ سماج معاشرہ کیسے آگے کی جانب بڑھ رہاہے۔

یہ انڈیا کی پرانی فلموں میں ہوا کرتا تھا کہ شوہر  رات کو شراب پی کر کوٹھے سے مجرا سن کر  بیڈ پر آکر گرتا ہے نشے میں اور بیگم اس کے جوتے اتار رہی ہوتی تھی اب یہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوسکتاہے۔یہ ممکن نہیں ہے،یہاں ایسا ممکن ہوسکتاہے کہ معاشرے میں اب بھی تین چار ایسی خواتین موجود ہوں جو جوتا اتار دیتی ہوں، لیکن اب وہ آئیڈیل نہیں ہے،وہ حقیقت میں نہیں ہوسکتا،ایسی بیگمات بھی اب کچھ دنوں کی ہے معاشرہ آگے بڑھ رہاہے،تبدیلی آرہی ہےہم جب کسی عمارت کو توڑتے ہیں تو اسکا بہت سا ملبہ ڈھیرجمع ہوتاہے، بعد میں آہستہ آہستہ سب ہٹا دیا جاتاہے پرانی چیزیں ختم ہورہی ہے نئی سوچ خیال آگے آچکاہے۔

مجھے تو یہی بات غلط لگتی ہے کہ  شادی کے بعد لڑکی لڑکے کے گھر چلی جاتی ہے یہ غلط ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اب معاشرے کی موجودہ شادی کرنے کی یہ  رسومات ذیادہ چلنے والی نہیں ہے نہ ہی یہ حالات رہنے والے ہیں،یہ اس صدی کے آخر تک ایسی چیزیں اب نہیں رہےگی،

جاوید اختر اور شبانہ اعظمی سے جب انکی اپنی شادی کی کامیابی کے راز کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہناتھاکہ شادی کامیاب کرنےکےلیے دو شخصیات کا ہونا بےحد ضروری ہے اکیلا آدمی کچھ نہیں کرسکتا،ایک اچھی شادی کےلیے دونوں شخصیات کو ٹھیک ہونا چاہیے ورنا معاملہ آگے نہیں بڑھ پاتا،اس دنیا کوبھول جائے کہ شوہر بیگم ، پتی پتنی، ہسبینڈ ، وائف یہ وہ پھتر ہے جو پہاڑوں سے  ہزار سالوں  سےگرتے آئے ہیں، ان ناموں سے اس رشتے کو مت جوڑے دو لوگوں کا سوچے دو افراد کا جو ساتھ رہتے ہیں یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہے گے تو کیسے خوش رہےگے،یہ بات نہیں ہونی چائیے میری خوشی میں آپ کی خوشی ہونی چاہیےیہ رشتہ غلامی کا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے، کوئی بھی رشتہ سچائی ، انصاف، برابری ، ایک دوسری کی عزت کرکےاور پرائیوٹ اسپیس اور پرسنل اسپیس  پرہونا چاہیے،جس میں کافی چیزیں ایسی ہے جو ہماری مشترکہ ہوگی اور کچھ ایسی چیزیں ہونگی جو کہ صرف اور صرف اس اکیلی کا رائٹ ہے،کسی بھی رشتے میں اس کی اپنی دنیا اس کے اپنے خواب ، انسپرئیشن اتنی اہم ہے جتنی آپ کی ہیں۔اگر دو ساتھ رہنے والے اس بات کو سمجھ لیے کہ ایک سورج اور دوسرا پلانٹ نہیں ہے اس کے اوربٹ پرگھومے آپ دونوں اسٹارز ہیں،اس طرح سے آپ کا مسئلہ حل ہوسکتاہے،پہلے تو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ کو نوکرانی چاہیے یا شریک حیات۔

میرے بچے جب شادی کی عمر کو  پہنچے اور میں سمجھا کہ ان سے بات کرنی چاہیے تو ان سے میں نے بات کی اور کہاکہ دیکھو اگر آپ لوگ  مزید پڑھنا چاہتے ہو تو میں پڑھا سکتاہوں کسی اور ملک میں جاکر رہنا ہے وہاں تعلیم حاصل کرنی تو میں کراسکتاہوں یا پھر کاروبار یا کچھ اور کام کرنا چاہوتب بھی میں مدد کرونگا ساتھ دونگا لیکن زندگی میں صرف ایک کام نہیں کرسکتا وہ یہ ہےکہ آپ لوگوں کی شادی کرانا، کیونکہ میں یہ سمجھتاہوں شادی کرانا میری ذمہ داری نہیں یہ وہ کام ہے جو آپ لوگ خود اپنی پسند سے کریں تو بہتر بھی ہوگا اور اچھا بھی ہوگا،شادی بالغ لوگوں کی ہوتی ہے اگر آپ کی عقل یہ فیصلہ نہیں کرپاتی کہ آپ کی کس سے شادی ہونی چاہیے تو آپ کی شادی ہونی ہی نہیں چاہیے،

دوسرا یہ ہے جو والدین کی مرضی سے جو شادیاں ہوتی ہیں وہ بھی کبھی صحیح تو کبھی غلط ہوجاتی ہیں،اسی طرح لو میریج بھی کبھی صحیح تو کبھی غلط ہوجاتی ہیں،تو اس میں بہتر یہی ہے کہ صحیح اور غلط کا رسک آپ خود لو،

میرا کام یہی ہے کہ جس دن آپ آکر مجھے بتادوگے کہ فلاح تاریخ فلاح جگہ اتنے بجے میری شادی ہے پھر چاہیےوہ کوئی بھی ہو وہ کیسے بھی ہو کس مزاج کاہے  کس مذہب کا ہے ، کس مسلک کا کس قوم کا ہے کس ملک کاباشندہ ہے،اسکا پروفیشن کیا ہے اس کی اکنامک کیاہےاسٹیٹس کیاہے  مجھے اس سے کچھ لینا دینا نہیں میں وہاں پہنچ جائونگا ، یہ آپ کی پسند ہونی چاہیے،لیکن جو انتظامات کرنے ہونگے وہ میں کردونگا ایک والد ہونے کے ناطے اور آپ لوگ یقین مانے میرے بیٹے فرحان اختر نے ایساہی کیا اور اس نے مجھے بتایا تو وہ بہت بزی تھا میں نےپوچھا کیسے کروگے تم تو اپنی فلم دل چاہتا  ہےمیں مصروف تھا  میں مصروف ہو اس نے کہا سب ہوجائےگا بس یہ تاریخ ہے اور اس دن انتظامات کرلیے اور ہم نے کرلیے اور شادی ہوگئی،بیٹی نے آج تک شادی نہیں کی ایک دن ہمت کرکے میں نے پوچھا کب شادی کرے گے۔

تو انہوں نے جواب دیا کہ میری تمام دوستوں کی شادی کے بعد طلاق ہوچکی ہیں اور ابھی تک میرا دل نہیں چاہتا کسی سے شادی کرو اگر کوئی ایسا دیکھا اور مجھے سمجھ آیا کہ مجھے اس سے شادی لر لینی چاہئے تو میں   لازمی اس آدمی  سے شادی کرلونگی۔

ہاں یہ میں مانتا ہوں ہر آدمی جاوید اختر کی طرح نہیں سوچتا سمجھتا نہ پڑھا لکھا ہوتاہے نہ اسے زندگی کے رجحانات اور زاویوں کو اسے دیکھ پاتاہے لیکن رشتے ضرورت کے محتاج نہیں ہونے چاہیے جن سے اس قدر نفرت کی جائے کہ ہم کسی کی جان لے لیے کوئی بھی رشتہ  ہو صرف محبت ہی سے  سنورتا ہے بنتاہے اگر ہم یہ جان اور سمجھ سکیں توہماری زندگی بہت آسان ہوگی رات کی تاریکی میں پھر کوئی قرۃ العین بلوچ بے وجہ تشدد کا نشانہ بنکر اپنے خوبصورت بچوں سےہمیشہ کےلیے جدا نہیں ہوگی۔