دس سروں والا ممتاز بھٹو (آخری حصہ)


دس سروں والا ممتاز بھٹو                                           (آخری حصہ)


نیویارک، حسن مجتبیٰ

 

 

ممتاز بھٹو جب لندن میں اختیار کی ہوئی جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئے تو ملک اور انکا آبائی صوبہ سندہ ایک نیا منظرنامہ پیش کر رہا تھا۔


اگرچہ اب بھی ضیا الحق کی فوجی آمریت تھی لیکن ضیا جیسے فوجی آمر کی اب حالت بقول شخصے اس ازدہا کی سی تھی جس نے بارہ سنگھا تو نگل لیا لیکن اب جا ن کنی کا عالم تھا۔


لیکن اس کے اپنے تئیں ایک کٹھ پتلی وزیر اعظم محمد خان جونیجو اب اسے ناکوں چنے چبوا رہا تھا۔ بینظیر بھٹو بھی اب جلاوطنی سے واپسی ملک میں تھی اور لاہور سمیت ملک کے کونے کھدرے میں لاکھوں لوگوں کے اس کے استقبالی جلسے جلوس تو اپنی جگہ سماجی تقریبات میں بھی اسکی شرکت ہزار وں لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ بینظیر کے علاوہ اور بھی کئی جلاوطن سیاسی لیڈر پاکستان واپس آ رہے تھے۔


ممتاز بھٹو کے علاوہ سندھی بلوچ پشتون فرنٹ کےحفیظ پیرزادہ، افضل بنگش وغیرہ۔

حفیظ پیرزادہ اور ممتاز بھٹو نے بھی ملک کے عام طور اور سندہ میں خاص طور دورے کرنے شروع کیے۔

لیکن سندھی بلوچ پشتون فرنٹ کے پیچھے جو اصل دماغ اور عرق ریزی تھی وہ افضل بنگش جیسے پرانی جوگی کی تھی۔



پرانے بائیں بازو کے یہ پشتون رہنما جنہوں نے اس سے قبل کسانوں میں کام کرنے کو مزدور کسان پارٹی بنائی ہوئی تھی جو ایوب خان کیخلاف بھی تحریک میں آگے آگے تھے اور ایوب آمر کی طرف سے اعلی عہدوں کی لالچیں اور دھمکیاں ملنے پر بھی سینہ سپر رہے تھے۔


افضل بنگش کا پشتون بائیں بازو پر نہ فقط پاکستان میں بلکہ افغانستان میں کافی تعلقات اور اثر تھا۔ بلکہ ضیا الحق کیخلاف انکی توسط سے بائیں بازو اور قومپرست تحریک سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی منحرفین اور لڑاکا کار سرحد پار کر افغانستان گئے ہوئے تھے۔


کہتے ہیں حفیظ اللہ امین کے افضل بنگش سے اتنے تعلقات تھے کہ انہوں نے انکو پیشکش کی تھی کہ انکی پاکستان مزدور کسان پارٹی اور افغانستان میں حفیظ اللہ امین کی خلق پارٹی کے دھڑے کا آپس میں ادغام ہو۔ جس پر افضل بنگش نے سختی سے انکار کردیا تھا۔ لیکن افضل بنگش سخت بیمار ہوگئے تھے اورانکی لندن جلاوطنی سے پہلے اور واپسی پر کئی بیماریوں نے انہیں گھر لیا ہوا تھا۔


جبکہ ممتاز علی بھٹو اور حفیظ پیرزادہ سے کچھ سندھی دانشور پروفیسر عمر میمن اور لندن میں ڈاکٹر جی ایم بھرگڑی اور خیر سگالی کی حد تک ابراہیم جویو(ابراہیم جویو نے خیر سگالی کی طور غلام مصطفی جتوئی کی نیشنل پیپلزپارٹی کا منشور بھی لکھا تو سندھی بلوچ پشتون فرنٹ کے منشور پر بھی قلم گھمایا) کے علاوہ بہت سے ان لوگوں کی حمایت حاصل ہوئی، اور جو کہ وہ وڈیرے اور مڈل،کلاسی اور سابقہ بیوروکریٹس جنہوں نے ان دونوں پیرزادہ اور ممتاز کی وزارتوں کے ادوار میں ان سے فائدے حاصل کیے یا پھر اپنے دور کے سرگرم نوجوان اور سیاسی سندھی قومپرست ایوب دھامرا اور مشہور طالب علم رہنما یوسف تالپور اور بعد میں گل محمد جکھرانی بھی شامل تھے۔


بھرچونڈی کے پیر سمیت کچھ پیر وڈیرے بھی آ کر ان سے ملے جو کہ ممتاز بھٹو اور حفیظ پیرزادہ سے اپنے دیرینہ تعلقات کی بنا پر تھے۔ کچھ بلوچستان کے پشتون بیلٹ کے پشتون قومپرست بھی آکر ملے تھے۔ لیکن ممتاز بھٹو بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں وہاں جلسے کرنے گئے جہاں پھر انکو اچھے کتے ملنے کا بھی آسرا ہوتا۔ کئی کتوں مرغوں کے شوقین اور ممتاز بھٹو کے پرانے برخوردار بھی ان سے آکر ملے۔



لاڑکانہ سے مٹھل مغیری اور وڈیرہ سیال ، جیکب آباد سےاکرم ابڑو بھی شامل،ہوئے۔شاید سپاف کے پرانے جگر جیالے احمد علی سومرو بھی ، ڈی ایس ایف سندہ کا سابق صدر طالب لاشاری، خیرپور میرس کا اللہ ورایو سومرو، مہران انجنیئرنگ یونیورسٹی کا پروفیسرقربان پنوھر (جسکو سینارٹی لسٹ میں غائب کیا گیا اشوک کمار “سپر سیڈ” کرتا تھا) وکیل مظفر صادق بھٹی،اعجاز خواجہ،جنید سومرو اور بڑے بھٹو کے دنوں سے سابق سینیٹر عبداللطیف انصاری، بدین سے نبی بخش بھرگڑی بھی شامل ہوئے تھے۔ بلکہ یوسف تالپور ذوالفقار علی بھٹو کے دنوں کا سابق ایم پی اے نبی بخش بھرگڑی ، میرا دوست اور تھر میں لوک دانش کا ماہر محنت کش سماجی کارکن فقیر مقیم کنبھرشامل،تھے۔بلکہ لطیف انصاری یوسف تالپور اور اعجاز خواجہ جیل بھی گئے تھے۔


ممتاز بھٹو نے سب سے یکساں سماجی تعلقات اور راہ وہ رسم رکھے جس میں فقیر مقیم جیسے قلندر اور اس اونچے پد کے وڈیرے کی دوستی بھی مثالی ہے۔ میرے دوستوں مقتول جاوید بھٹو کی بہن ڈاکٹر فوزیہ بھٹو کے رحیم بخش جمالی کے ہاتھوں قتل، اور قتل کے بعد جاوید اور اہل خانہ کو “صلح” پر جمالیوں کی طرف سے دھمکیوں پر ممتاز بھٹو نے برہ راست جمالیوں کے سردار ظفراللہ جمالی کو فون کا اور کہا تھا کہ وہ اپنے جمالیوں کو روکے ورنہ جمالی کا سندہ میں رہنا مشکل ہوجایئگا۔ جنید سومرو کی توسط سے ممتاز نے جاوید بھٹو سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور ملنے پر اسے ہر قسم کے تعاون اور مدد کی پیشکش اور یقین دلایا تھا۔


اور پھر جب ممتاز علی بھٹو اور عبدالحفیظ پیرزادہ کیخلاف انکی تقاریر پر بغاوت کے مقدمات قائم ہوئے کچھ وڈیروں نے پتلی گلی لی۔

بہرحال کئی سندھیوں کیلے ممتاز بھٹو سے ملنا اٹھنا بیٹھنا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ کامریڈ غلام رسول سہتو کہا کرتا تھا، “ممتاز بھٹو لوسی کتے بھی نہیں رکھتا تو لوگ لوسی کیسے رکھے گا”۔ کیونکہ ممتاز بھٹو کا تصور سندہ میں ایک “ڈاڈھے مرد” کا سا تھا۔


ویسے بھی سندھی یا برصغیر کے لوگ “ڈاڈھے مردوں”۔ سے کاندھے ا چکانا بڑا ٹیکہ سمجھتے ہیں۔ خود ممتاز بھٹو لوک دانش، مزاح، دیہاتی نقطہ سنجی اور مطالعے کا رسیا تھا۔ شکار میں تو وانٹھوں ( جو شکار کو گھیر گھار کر لاتے ہیں اور اہم شکاری کے معاون ہوتے ہیں) کی ہنسی مزاح اور غیر دانستہ اور دانستہ انکے منہ سے نکلی گالیوں کا بھی برا نہیں مناتا تھا۔بلکہ ہنس کر کہتا کہ “حرامیو، مجھے بھی نہیں بخشتے)۔ یہ تو کہیں ایک وڈیو کیے ہوئی شکار میں ہے کہ جب انکے سوئر کے شکار کےدوران وانٹھے سور کو سیدھے منہ آتے دیکھ کر چلا کر کہہ رہے ہیں “ مارو۔ جانے مت دینا اپنے باپ کو”۔ یہ ایسے لوگوں کی اسٹینڈرڈ زبان ہوتی ہے آور شکار میں ممتاز بھٹو اسپورٹس مین اسپرٹ رکھتا تھا۔ سندھ کے خوفناک وڈیروں کمار یوں، سندر خان سندرانی اور رضا محمد ڈاہری سے انکی دوستی کتوں اور شکار کی تھی۔



لیکن جب بینظیر بھٹو فوجی آمر کیخلاف میدان میں اتری تھی بڑے بڑے ڈاڈھے مردوں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ خود ممتاز علی بھٹو نے، بینظیر کےاگست انیس سوچھیاسی میں ایم آر ڈی تحریک کے دوران ستر کلفٹن سے تمام پولیس اور دیگر فورسز اور سادہ لباس اہلکاروں کے گھیرے اور فائرنگ اور آنسو گیس کے باوجود گھیرے توڑ کر تب پی پی پی کے گڑہ لیاری پہنچی تھی تو ممتاز بھٹو نے اپنے با اعتماد ساتھیوں سے کہا تھا “کچھ بھی ہے بینظیر بہادر بڑی ہے۔ ہم بھی ایسی بہادری نہیں کرسکتے”۔ لیکن لوگوں کے منہ اور دریا کے رخ کس نے روکے ہیں۔


غیر مصدقہ باتیں تو یہ بھی ہیں ممتاز بھٹو بینظیر بھٹو سے خود شادی کا خواہشمند تھا۔ انہیں انکے مداح اور کارکن “صاحب” کہہ کر پکارتے۔ دو مرتبہ وزیر اعلی، وفاقی وزیر ایک بار گورنر رہنے والا “صاحب” اپنے ملنے والوں سے کہتا تھا کہ یہ پولیس کے پروٹوکول میں ہوٹر اور سائرن اقتدار سے ہٹنے کےبعد بھی کئی دن تک خوابوں میں بجتے رہتے ہیں۔



بدین کے لوگوں کو اب بھی یاد ہوگا جب بینظیر بھٹو پہلی بار بدین آئی تھیں تو نبی بخش بھرگڑی نے انکو استقبالیہ کے دعوت دی تھی تو اسوقت پی پی پی کے مقامی کارکنوں نے ان سے شکایت کی تھی کہ،وہ نبی بخش بھرگڑی کی دعوت مت قبول کریں کہ وہ اس سے پہلے حاکم علی زرداری کی میزبانی کر چکے ہیں جب حاکم علی زرداری ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلوانے کی مہم میں سندہ کے دورے پر نکلا تھا۔ بینظیر بھٹو نے پھر اپنے بدین کے جیالوں کی ایسی شکایت پر نبی بخش بھرگڑی کے استقبالیہ میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔


کسے پتہ تھا پھر اسی حاکم علی زرداری کے بیٹے سے بینظیر کا بیاہ ہوگا۔ ممتاز بھٹو نے تمام عمر آصف علی زرداری سے نہ صلح کی نہ کبھی ان سے ملے بھی۔ بلکہ ممتاز بھٹو نے کہا تھا آصف زرداری کو وہ گڑہی خدا بخش میں دفن کرنے بھی نہیں دیں گے کہ یہ بھٹوئوں کا آبائی قبرستان ہے۔ زرداریوں کا نہیں۔



سندھی بلوچ پشتون فرنٹ زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکا کیونکہ ایک تو اسکے اصل سیاسی دماغ افضل بنگش 1986 میں انتقال کرگئے اور دوسرا حفیظ پیرزادہ اور ممتاز بھٹو کی زیادہ نہیں بن سکی تیسرا عطا اللہ مینگل زیادہ،عرصے تک لندن مین قیام پذیر رہے اور تیسرا پشتون اور بلوچ زعما کی دلچسپی خطے میں بھی ہونیوالی تبدیلیوں پر رہی۔


سندہ اور سندھی عالمی اسکیم میں دور دور تک فٹ دکھائی نہیں دیتے تھے نہ شاید اب بھی دے رہے ۔(مئی دو ہزار ایک میں عطا اللہ مینگل،واشنگٹن میں نام نہاد سندھی کانفرنس میں شرکت کرنے آئے تھے اور انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا “امریکیوں کو بنیاد پرستوں سے نہیں ہم سے بات کرنا پڑے گی”۔ اس سے ایک برس قبل ممتاز بھٹو بھی واشنگٹن اسی سابقہ ورلڈ سندھی انسٹیٹیوٹ کی کانفرنس میں مدعو تھےتھے کیونکہ اس سے کچھ سال قبل انکے ہی خط پر کانفرنس کے منتظم منور لغاری کو امریکہ کا ویزہ جاری ہوا تھا۔ ممتاز بھٹو اپنی نوبیاہتا اہلیہ سمیت اس کانفرنس میں شریک ہوئے تھے)۔


بینظیر بھٹو کو سیاسی منظرنامے چاہے جسمانی طور ہٹانے یا آنیوالے انتخابات سے اسے اور اسکی پارٹی کو روکنے کو ضیا الحق کی زندگی میں ہی کام شروع ہوچکا تھا جس کیلے سندہ میں جنوبی ایشیا کے بدترین نسلی لسانی یعنی مہاجر پٹھان، مہاجر پنجابی پٹھان، اور سندھی مہاجر فسادات کروائے گئے۔



اور دوسری طرف دائیں اور بائیں بازو کی تمام پارٹیوں اور شخصیات کو ایک مختلف انواع و اقسام کے اتحادی پلیٹ فارموں پر جمع کرنا تھا۔ سندھی قومپرست جماعتوں پر مشتمل سندھ نیشنل الائنس یا سندہ قومی اتحاد بنا تو ان فسادات کے دوران سندھیوں کے دفاع کو تھا لیکن ضیا آلحق کی اس میں کافی “انویسٹمنٹ ” کی ہوئی تھی۔ الاہی بخش سومرو اور یوسف ہارون، محمود ہارون کے ذریعے جی ایم سید کو بھی رام کرلیا گیا ہوا تھا۔


سندہ قومی اتحاد کے تاسیسی اجلاس سے قبل الاہی بخش سومرو نے جی ایم سید سے ملاقات کی تھی اور اسکے بعد سومرو جاکر ضیا الحق سے عمر ے کے دوران سعودی عرب جا کر ملے تھے۔ قومی اتحاد کے تاسیسی اجلاس میں جی ایم سید نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنا سندھودیش کا پروگرام چھوڑ کر ایک دفعہ پھر پاکستان کی حدود کے اندر حقوق کی جدوجہد کرنا قبول کی ہے اور اپنی اس بات کو انہوں نے آسمان سے گر کر کھجور سے لٹکنے سے تعبیر کیا تھا۔ ممتاز بھٹو اور حفیظ پیرزادہ، معراج محمد خان، جام ساقی، رسول بخش پلیجو، عبدالحمید جتوئی اسکے بیٹے سینیٹر اعجاز جتوئی اور لیاقت جتوئی، ڈاکٹر ارباب کھہاوڑ ، لطیف ، کمیونسٹ اور کئی پارٹیاں اس سندہ قومی اتحاد کا حصہ تھے۔


۔ اگرچہ 17 اگست 1988 کو ایک فضائی حادثے میں ایشیا کی تاریخ میں اس بدترین فوجی آمر کی موت ہونے سے بقول بینظیر بھٹو” ہم میں سے کئیوں کے سر پر منڈلاتی موت ٹل گئی” ضیا کی موت کے بعد انتخابات کا اعلان ہوا لیکن ٹارزن کا سفر جاری رہا۔ انتخابات کو ملتوی کرانے اور غلام مصطفی جتوئی کو وزیر اعظم بنانے کو ستمبر 1988 کو حیدرآباد اور یکم کو کراچی میں لسانی بنیادوں پر بدترین قتل عام ہوا۔ سندہ اب دو چند کرنل چلا رہے تھے۔


، انتخابات میں ممتاز علی بھٹو اور حمیدہ کھوڑو کو بھی لاڑکانہ سے کھڑے ہوئے لیکن حفیظ قریشی نے بھٹو بیگمات کو اتنی مغلوظات بکیں کہ ممتاز بھٹو شکست کھا گئے۔ بینظیر بھٹو اور اسکی پارٹی بہرحال ملک کے عام انخابات جیت گئی لیکن انہیں اقتدار حوالے کرنے میں تبتک غلام سحاق خان نے پس و پیش کی جاری رکھی جبتک اسوقت پاکستان میں امریکہ کے متعین سفیر رابرٹ اوکلے نے اپنا اثر رسوخ نہیں چلایا۔ لیکن پھر بھی کئی ماہ تک بینظیر بھٹو کو نہ نیوکلئیر تنصیبات بر بریفنگ دی گئی اور نہ ہی دفاعی معاملات میں احکامات کا اختیار۔


یہ بینظیر کو اقتدار حوالے کرنے میں میں پس و پیش اور بعد میں مداخلت کی گواہی کم از بینظیر کے تین مستند سوانح نگاروں نے بھی دی ہے۔ پھر آپ نے دیکھا کہ رابرٹ اوکلے کو بھی سندہ میں سازشی تھیوریوں میں ملوث کیا گیا کہ وہ ایک اچھی شہرت والے بیوروکریٹ تسنیم صدیقی کیساتھ ملکر خدا کی بستی کوٹری میں بہاریوں کی آبادکاری چاہتا ہے۔ سندھی صحافی فقیر محمد لاشاری اور پی پی پی کے ترجمان سندھی اخبار “ہلال پاکستان” نے اس پر انگریزی میں ایک مشترکہ اداریہ “یو رابرٹ اوکلے” کی عنوان سے لکھا جو اخبار کے صفحہ اوّل پر شایع ہوا۔ جسکے نتیجے میں “ہلال پاکستان” کے ایڈیٹر دستگیر بھٹی کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ظاہر ہے کہ فیک نیوز تھی۔



بہرحال ممتاز بھٹو نے 1989 میں سندہ نیشنل فرنٹ کی بنیاد رکھی اور اسکا پہلا کنونشن حیدرٓباد میں ہوا۔ انیس سو نوے میں بینظیر بھٹو کی حکومت صدر غلام اسحاق نے ختم کی)۔

 


انیس سو نوے میں غلام اسحاق خان کے ہاتھوں اپنی حکومت کے خاتمے پر بینظیر بھٹو واپس اپنے بلاول ہائوس کراچی پہنچی جہاں اس نے ایک پریس کانفرنس طلب کی۔ پریس کانفرنس شروع کرنے سے پہلے بینظیر بھٹو نے پریس کانفرنس والے ہال میں موجود صحافی کامران خان کو ہال سے نکل جانے کا کہا تھا۔ یہ کہتے ہوئے “ہمیں پتہ ہے آپ کو کون سا برگیڈیئر ہا،ری حکومت کیخلاف خبریں دیا کرتا تھا”۔ پریس کانفرنس میں بینظیر بھٹو نے پہلی بار اپنی حکومت کے خاتمے کے پیچھے براہ راست ہاتھ پاکستان کی آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلیجنس یا ایم آئی کا بتایا۔ پارٹی تو اب شروع ہوئی تھی۔



پاکستان کی اسٹبلشمنٹ جو کہ اصل میں ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اسکے جاسوسی محکمے ہوتے ہیں انہوں نے بینظیر کے مقابلے میں اسکے سابق انکلزمیدان میں اتارنے شروع کیے تھے۔ غلام مصطفی جتوئی تو پہلے ہی جیالوں کے نزدیک بھٹو فیملی ہیرو ہیرو باقی سارے زیرو زیرو میں آ چکے تھے۔ اور ایک اور نعرہ بھی جیالے لگاتے تھے “جتوئی کھر دربدر”۔ لیکن اسٹبلشمینٹ نے اسی ایک انکل غلام مصطفی کھر کی توسط سے بلاول ہائوس میں ملاقات کو بھیج کر بینظیر کو تنبییہہ بھیجی تھی کہ وہ اس طرح کے “الزامات” سے احتراز کریں۔ یہ اور بات تھی کہ 2 دسمبر 1988 سے جب سے بینظیر بھٹو اقتدار میں آئی تھی سے چھ اگست 1990ا تک اسکی حکومت کے خاتمے تک بلاول ہائوس کے لانز پر متعین “مالی” حقیقت میں آئی ایس آئی یا ایم آئی کا کرنل تھا۔


اور دوسرا انکل جام صادق علی آصف زرداری کے ہاتھوں تھپڑ کھا کر اب اپنی راہیں جدا کر کر سندہ کا نگران وزیر اعلی غلام اسحاق خان کی طرف سے بنایا جا چکا تھا۔ اب سب انکلز لائین میں لگے تھے۔ غلام مصطفی جتوئی نگران وزیر اعظم جسکی نگرانی میں انیس سو نوے کے تمام انتخابات جنرل رفاقت کے تحت چوری کرائے گئے۔ نوے کے انتخابات سندہ میں کن حلقوں مین ڈاکوئوں سانگھڑ میں گلو مری، دادو مورو میں سلطو جتوئی اور مٹیاری میں محب شیدی کے بل بوتے پر جیتے گئے تھے۔ دوسرا انکل پھر کچھ سالوں کے بعد ملک معراج خالد، اور نگران وزیر اعلی ممتاز علی بھٹو۔


ہن بڈھیاں دی باری ہے” ملک معراج خالد اپنے بہی خواہوں سے کہتا تھا۔ لیکن ابھی ذرا ٹھہریے۔



بینظیر کی پہلی حکومت کے خاتمے سے کچھ دن پہلے میڈیا میں مرتضی بھٹو کی واپسی” کی جعلی خبریں چھوڑی گئیں۔ کہتے ہیں بینظیر کی حکومت کی برطرفی کے آپریشن کا خفیہ نام “مرتضی بھٹو آپریشن” رکھا گیا تھا۔ جن دنوں بینظیر کی حکومت نے پکہ قلعہ آپریشن کیا تھا جو اسکی حکومت کے خاتمے پر غلام اسحاق خان کے ٹیلیویزن خطاب میں حکومت کے خاتمے کے اسباب میں سے ایکگنوایا گیا تھا، ان دنوں کابل پر پاکستانی فوجی کارروائی بھی ناکام گئی تو جنرلوں نے ایک دوسرے سے کہا تھا کیا ہوا اگر ہمارے پاس کابل نہیں۔ ہمارے پاس سندہ ہے”۔



پھر آپنے دیکھا کہ اسی کامران خان کے ذریعے گھیر گھار کر مرتضی بھٹو کو دمشق میں جلاوطنی سے واپس لایا گیا۔ اور باقی سب تاریخ ہے۔ کیا کامران خان کے دمشق سفر اور قیام کے اخراجات جنگ اور نیوز گروپ نے ادا کیے ہونگے؟ مجھے شک ہے۔ کامران خان بظاہر مرتضی بھٹو کا جنگ گروپ کے دی نیوز کیلیے انٹرویو کرنے دمشق گیا تھا اور وہ انٹرویو شایع بھی ہوا تھا۔ یہ مرتضی بھٹو کا کسی بھی پاکستانی اخبار یا میڈیا کو دیا گیا پہلا انٹرویو تھا جس میں اس نے جلد ہی جلاوطنی ختم کر کر واپس وطن لوٹنے کا عندیہ دیا تھا۔ آنیوالے سالوں میں ممتاز بھٹو وطن واپسی سے لیکر آخر دم تک مرتضی اور اسکے پی بیوی بچوں کے ساتھ میں رہا۔ ایک سادہ لوح سندھیوں کا تاثر یہ بھی ہے کہ اگر ممتاز بھٹو کا ان کو ساتھ نہ ہوتا تو زرداری مرتضٰی کے بیوی بچوں اور املاک کو کھا جاتا۔ صنم بھٹو کے قبضے شدہ پلاٹ کے قبضہ گیروں کا پتہ جب بیلفوں کو بلاول ہائوس کا ملتا ہو تو کچھ بھی بعید نہیں۔



ممتاز بھٹو کو پھر بھٹو ذات یا قبیلے کی سرداری کا شوق ہوا کہ اچانک بھٹو قبیلے کا سردار اور پیر بخش بھٹو کا بیٹا واحد بخش بھٹو قتل ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ بیگم نازلی بھٹو کے اس بیٹے کے قتل کے کھرے بھی ممتاز بھٹو کی طرف جاتے تھے۔ اب مقتول واحد بخش کی جگہ اسکے چھوٹے بھائی عامر بھٹو کی بجائے ممتاز بھٹو سردار بن بیٹھے اور انہوں نے بھٹو قبیلے کا ،بقول اسکے سندہ پنجاب سے۔ چودہ ہزار شرکا کا “اکٹھ” بلاکر اپنے سردار ہونے کا اعلان کیا۔ نہ فقط وہ سردار بن بیٹھے اب ڈھیسر سندہ کے ساتھ انکے نام سے پہلے “سردار ممتاز علی خان بھٹو” انکو کہنا اور لکھنا “لازمی” ٹھہرا۔ جو بھی سندھی اخبار اور میڈیا انکے نام کے آگے سردار نہیں لکھتے اور کہتے انکو بزور طاقت دھونس دھمکی ممتاز علی بھٹو کو سردار لکھنے پر “آمادہ” کیا جاتا۔


اس سلسلے میں دو مواقع پر سندھی اخبارات “کاوش” اور “عوامی آواز “ کیخلاف ممتاز بھٹو کے نہ فقط کارکنوں اور مداحوں نے پرتشدد کاروائیاں کیں بلکہ ممتاز بھٹو نے ایسی کاروائیوں کو درست قرار دیا۔ واشنگٹن میں جب میں نے ان سے انکی سندھی میڈیا کیخلاف متشدد کاروائیوں کے متعلق سوال،پوچھا تھا تو انہوں نے یہ کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کی تھی کہ “ہاں میں نے یہ کاروائیاں کروائی ہیں”( اسوقت تک انہوں نے کاوش گروپ کی میڈیا اور اسوقت اسکے مالک و ایڈیٹر علی قاضی کیخلاف یہ مہم کی ہوئی تھی)۔ لیکن جب انہوں نے اخبار “عوامی آواز” پر انکی پارٹی کے کارکنوں اور مداحوں کی طرف سے حملہ اور اخبارات کی ترسیل پر متشدد رکاوٹیں ڈلوائیں تو سندہ میں زرداری حکومت نے اخبار کے مدیر شاید جابر خٹک کی طرف سے ایف آئی آر داخل کروانے پر ممتا بھٹو کو گرفتار کیا۔ کراچی پولیس لاڑکانہ سے گرفتار کر کر انہیں کراچی لاکر عدالت میں پیش کیا۔


مجھے لگتا ہے اخبارات پر حملوں سے زیادہ زرداری کو ممتاز بھٹو سے اپنا حساب چکتو کرنا تھا۔ وگرنہ اس سے قبل انکے کارکنوں نے ممتاز بھٹو کیخلاف خبر شایع کرنے پر ڈان حیدرآباد کے نمائندے محمد حسین خان کا سر شدید زخمی کردیا تھا۔ جس پر بھی ممتاز بھٹو نے آخر تک معذرت نہیں کی۔


انیس ترانوے کے عام انتخابات کے نتیجے میں بینظیر بھٹو کے مرکز و صوبہ سندھ میں اپنی پارٹی کی حکومت بنی اور وہ دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئی۔ لیکن ممتاز بھٹو اور مرتضی بھٹو اپنی اپنی پارٹیوں کے پلیٹ فارمز پہ لاڑکانہ سے انیس سو ترانوے کے عام انتخابات میں سندہ اسمبلی میں رکن منتخب ہو کر آئے تھے۔ یہ مرتضی بھٹو اور زرداری بینطیر حکومت کے درمیان ایک طرح کا فری اسٹائیل دنگل تھا جو بیگم نصرت بھٹو کی پارٹی کی چیئرمین شپ ختم کرنے سے لیکر المرتضی لاڑکانہ پر پولیس فائرنگ (جب لاڑکانہ کا ایس ایس پی بشیر میمن تھا) مرتضی اور اسکے جیالوں کے ہاتھوں زرداری کی زبردستی مونچھیں مونڈھے جانے کی “افواہوں” سے بھی آگے جاری رہا۔ عبداللہ شاہ کو گلے سے پکڑنا اور کبھی نثار کھوڑو کو تھپڑ مارنا اور آخری ایکٹ میں کراچی کے ایک تھانے سے اپنے ایک لڑاکاکارجیالے علی سنارا کو ڈیوٹی پر موجود پولیس والوں کوگالی گلوچ کر کر چھڑوانے تک جاری رہا۔ اس پر تب پیر پاگارو نے ازراہ تفنن کہا تھا “میں بھی اگر وزیر اعظم کا بھائی ہوں تو ایسا کروں”۔


اب یہ بات کرنی یہاں بے مہل نہ ہوگی ادھر اسلام آباد میں صدر فاروق لغاری کے بیٹے اور بیٹے کی “وڈیوز” بناکر فاروق لغاری کو دکھانے کی خبریں بھی آتی رہی تھیں۔ یہ اقتدار کی سیاست اور پاکستان کی خفیہ ایجینسیوں اسٹبلشمینٹ اتنی واہیات بھی ہوسکتی ہے کہ جام صادق علی نے اپنے دور میں آئی بی کے برگیڈیئر امتیاز بلے کی مدد سے سے ایسی ایک وڈیو “بینظیر اور زرداری کی حق شرع” کرتے خفیہ طور تب بنوائی تھی جب وہ قید میں تھا اور اسے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کو لایا گیا تھا۔ یعنی کہ اسلام آباد کے کوفے میں شوہر اور۔ بیوی کو حق ازدواجیت ادا کرنے کا بھی حق نہیں۔


بہرحال قصہ المختصر مرتضی بھٹو کو اپنے گھر کے قریب دو تلوار کے چوراہے پر بظاہر پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔ اسوقت کے سٹی پولیس چیف شعیب سڈل نے اس آپریشن سے قبل آپریشن ٹیم کے افسروں کوہدایات دیتے ہوئے کہا تھا مرتضی بھٹو تمہاری ٹوپی بھی سر سے اتار کر پھینک سکتا ہے تمہیں تھپڑ بھی مار سکتا ہے لیکن تمہیں صبر سے کام لینا ہے۔ لیکن ممتاز بھٹو کہتے تھے مرتضٰی کے قتل،سے ایک رات قبل کراچی ک منسٹہائ میں زرداری نے اپمرتضی کے قتل والی پولیس افسروں ٹیم سے ملاقات کی تھی جن میں شاہ بھیموجود تھے۔ اور اس میٹ گ کا ریکارڈ موجود تھا۔

مرتضی بھٹو کو قتل کردیا گیا۔ اور اسکا الزام اس پولیس ٹیم کیساتھ پر زرداری اور عبداللہ شاہ پر دھر لیا گیا۔ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ مرتضی بھٹو کو زرداری نے قتل کروایا اور کئی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمینٹ نے۔ میں سمجھتا ہوں ہر اس کو شخص پاکستان کی اسٹبلشمینٹ نے مروایا جسکا آخری نام بھٹو تھا سوائے ممتاز بھٹو کے۔


آخرکار نومبر انیس سو چھیانوے میں بینظیر بھٹو کی حکومت آسوقت کے جیالے صدر فاروق لغاری نے برطرف کردی اور سندہ میں ممتاز بھٹو کو سندہ کا نگران وزیر اعلی نامزد کیا۔ میرے ایک دوست نے کہا یہ پاکستان کی اسٹبلشمینٹ کا بینظیر کو جواب تھا “جیئے سندہ”۔

ممتاز علی بھٹو نے نگران وزارت اعلی سنبھالتے سب سے پہلا ،کام یہ کیا کہ اپنے خلاف قائم بغاوت کا مقدمہ ختم کیا جو حیدرآباد کی انسدداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت تھا۔


زرداری اور مرتضی بھٹو کے قتل آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس عملدار اور پولیس والے گرفتار کیے گئے اور سندہ کے وزیر اعلی عبداللہ شاہ کو بھی مرتضی بھٹو قتل،کیس میں نامزد کیا گیا۔ ممتاز بھٹو نے بینظیر بھٹو کیس میں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کو بتایا تھا کہ مرتضی بھٹو قتل اور بینظیر کیس قتل کیسوں میں ایک بڑی مماثلت یہ ہے کہ پولیس انسپیکٹر حق نواز سیال کی طرح خالد شہنشاہ کو بھی قتل کردیا گیا۔ اس کیس میں تمام پولیس کے ملزمان واجد درانی شاہد حیات، رائو، شکیب قریشی، و دیگران کو زرداری دور حکومت میں بڑے عہدوں پر رکھا گیا جبکہ شکیب قریشی کو ڈی فیکٹو طور سندہ میں محکمہ داخلہ اور پولیس کا انچارج بنایا گیا۔


ممتاز علی بھٹو نے اپنی وزارت میں بڑے بھٹو دور کے سابق بیورو کریٹ اور چھ حروں کے قتل،کیس کے سابق ملزم امداد اللہ انڑ کو احتساب کا انچارج مقرر کیا اور اپنی پارٹی کے کارکن اللہ ورایو سومرو کو شاید آبپاشی کا وزیر اور مظفر صادق بھٹی کو وزیر قانون بنایا۔ امداد اللہ انڑ نے بینظیر دور اور اس سے قبل لیاقت علی جتوئی کی بدعنوانیوں کے مقدمات کی بڑی تشہیر کی۔ یہ بھی رپورٹیں ہیں کہ محکمہ جنگلات کی کافی بڑی اراضی ممتاز علی بھٹو یا اسکے لوگوں کے نام الاٹ کی گئی۔ لاڑکانہ کے شاعر کمشنر انوار احیدر کو ہتھکڑی لگا کر گرفتار کیا گیا۔


لیکن انیس سو ستانوے کے انتخابات میں پی پی پئ کے امیدوار ایاز سومرو کیخلاف دھاندھلیاں کرواکر ممتاز بھٹو کے اپنے بیٹے امیر بخش بھٹو کو صوبائی اسمبلی کی نشست سے جتوایا ۔


انیس سو ستانوے کے انتخاب کے نتائج میں نواز شریف دوسری بار ہیوی مینڈیٹ” سےوزیر اعظم منتخب ہو کر آئے۔ اگرچہ نگران وزیر اعلی کو ایک ہی کام تفویض کیا جاتا ہے کہ وہ شفاف و غیر جانبدارنہ انتخابات کروائے اور گھر کو واپس جائے لیکن اب “ہیوی مینڈیٹ” وزیر اعظم کی طرف سے ممتاز بھٹو کو اپنی نگران چیف منسٹری سے سبکدوش ہونے سے قبل ایک “ہیوی ڈیوٹی” سونپی گئی۔



وہی سندہ کی تاریخ کا ایک اور بدنام زمانہ وزیر اعلی جسکی بدعنوانی کے مقدموں کی تشہیر ممتاز بھٹو حکومت نے اور اسکے پیشروئوں نے کی تھی ا سندہ کا نیا وزیر اعلی نامزد کیا گیا۔ ۔ اب ممتاز بھٹو کو یہ فرض تفویض کیا گیا کہ وہ اس بات کو یقین بنائیں کہ لیاقت جتوئی کی تمام بدعنوانی کے مقدمات میں انکی وزارت اعلی کا حلف اٹھانے سے قبل ضمانت قبل از گرفتاری ہوجائیں ۔ جانیوالی نگران حکومت کے وزیر قانون مظفر صادق علی بھٹی نے متعلقہ جج سے رابطہ کیا اور جج لیاقت علی جتوئی کی بدعنوانی کے تمام مقدمات میں ضمانتیں منظور کرنے پر تیار ہوگیا مگر ایک شرط پر۔ وہ شرط یہ تھی کہ جج صاحب کی سالانہ کارگردگی کی مخفی رپورٹ یا اے سی آر میں جو انکے خلاف انکے بالا دستوں نے منفی ریمارکس دیے ہیں وہ حذف کیے جائیں۔ نواز شریف انتظار مین تھا جبتک لیاقت جتوئی کی تمام کیسوں میں ضمانتیں منظور نہیں ہوئیں اور وہ حلف اٹھانے کے قابل نہین ہوئے۔


جب تک سلطان جہان والا کے گھر پر شامیانے لگا کر لیاقت جتوئی کا انتظار ہوتا رہا اور بار بار نواز شریف فون کر کر لیاقت جتوئی کی ضمانتوں کا معلوم کرتے رہے۔ اسی طرح ممتاز علی بھٹو اپنی اسی “ہیوی ڈیوٹی” نگرانی سے فارغ ہوئے۔ انکی پارٹی کے الہہ ورایو سومرو جو رکشہ پر اپنی نگران وزارت کا حلف اٹھانے پہنچے تھے وہ نگران حکومت ختم ہونے پر لینڈ کروز میں واپس لوٹے۔ امن امان کی صورتحال یہ تھی اگر انکی نوے دنوں کے نگران حکومت کے دوران کوئی برآمدگی ہوئی تو صرف انکے بیٹے امیر بخش بھٹو کی چھینی ہوئی گاڑی پولیس نے واپس کرائی۔ انکی نگران وزارت اعلی کی دوران نیشنل فنناس کمیشن پر اجلاس ہوا اور یہ سندھ کے خالی خزانے پر اپنی دستخط کر کر واپس آئے۔ کہتے ہیں کہ انکو ایک اعلی سنہ کا کتا پیش کیا گیا تھا۔


انکی پارٹی سندہ نیشنل فرنٹ سے کئی لوگ اور انکے ساتھی ان سے ٹوٹتے گئے۔۔ یوسف تالپور تو پہلے ہی الگ ہو چکے تھے لیکن کچھ عرصے بعد گل محمد جکھرانی بھی پیپلزپارٹی میں جاکر شامل،ہوا اور ایم این اے بنا۔۔


اس نے دو ہزار تیرہ میں اپنی پارٹی سندہ نیشنل فرنٹ کو پہلے مسلم لیگ نوز شریف میں اور اب ٹحریک انصاف میں ضم کیا ہوا تھا۔ ممتاز بھٹو اب سندہ اور ملک کے لوگوں سے نا امید ہو چکے تھے جو جسکا اظہار انہوں نے متعدد بار اپنے کئی انٹرویوز ان کے ساتھی زیادہ تر اب انکے پرانے دوست اور شکار بھائی بچے تھے۔ لیکن مرتضی بھٹو اور پھر بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد وہ انکا دونوں وسیع وارداتوں کا زمہ دار آصف علی زرداری ہی کو ہی قرار دیتے تھے۔ وہ بینظیر کی انکو پارٹی کا وارث بنا جانے کی وصیت کو بہت سے لوگوں کی طرح جعلی سمجھتے تھے۔


وہ کہتے تھے کہ پولیس بھی عام طور قتل کے کیسوں میں سب سے پہلے اسی پر ہاتھ ڈالتی جسے اس قتل سے زیادہ فائدہ،ہوتا ہے اور بینظیر کے قتل کے بعد زیادہ سے زیادہ فائدہ زرداری کو پہنچا ہے۔ دور دراز سندہ اور صحرا کے سفر شیل شکاروں نے انکیصحت پر خراب اثر ڈالا تھا۔ کس وقت وودکا کو پانی کی طرح پینے والے سرخ سپئد ممتاز بھٹو جنکا بہت پہلے بائی دل کا بائی پاس آپریشن بھی ہوا تھا اب پھپھڑوں کے عارضی میں بھی مبتلا تھے۔


بس انکی ایک بات جو مجھ سے لڑ گئی وہ تھی انکی انسانوں سے زیادہ،سوائے بچارے جنگلی سور کے، جانوروں اور پرندوں سے پیار۔ انکے مداحوں نے انکی سوشل میڈیا پر ایک وڈیو پر انہی اخروٹ سے تعبیر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں “اخروٹ باہر سے سخت لیکن اندر سے مزیدار اور نرم ہوتا ہے۔” انکی تئیں انکا لیڈر ممتاز بھٹو بھی اخروٹ کی مانند تھا جو اپنے بنگلے پر کبوتروں کو اپنے ہاتھ سے دانہ چگاتا تھا۔ اور علاقے کے انسان جس سے خوف کھاتے اسی ممتاز بھٹو سے کبوتر اور کتے بہت ہی مانوس تھے۔


ان سے یہ غیر مصدقہ کہانی منسوب ہے کہ ایک دفعہ سندھی زبان کے سب سے بڑے شاعر شیخ ایاز سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ممتاز بھٹو نے انکو اپنی شاعری سنانے کو کہا تھا۔ شیخ ایاز کی شاعری سنکر انہوں نےکہا تھا “آپ کی شاعری بھی اچھی ہے لیکن ہمارے مقامی شاعر باڈاہی کی کیا بات ہے


وہ شخص جو سندہ پر دس سر قربان کردینے کا دعوا کرتا تھا عمران خان کی پی ٹی آئی کے سندہ میں ایک اسپیئر وہیل الیڈر کی حیثیت میں جہان رنگ و بو سے چلا گیا۔ وہ جو آکسفورڈ پلٹ ہوتے ہوئے بھی پائوں ننگے اور مسکین لوگوں کو اسکے پائوں پڑنے کو عیب نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن انکی موت سے سندہ کے عہد کا باب ایک بند ہوگیا ایک اور ٹیکسٹ بک جاگیردار چلا گیا۔


وہ اپنی نسل کے آخری سیاستدان تھے جن سے برگیڈیئر سے اوپر والے بات کرتے تھے اب سیاست میں جو لاٹ ہے انکے ہینڈلرس میجر بھی ہوں تو انکیلے بڑی بات ہے۔ لیکن بری خبر یہ ہے کہ جاگیرداری کے پنجے سندہ کے نرخرے پر اسی طرح ہی گڑے رہیں گے۔