پاکستان میں کم تنخواہوں، نامکمل سہولیات، تربیت کے فقدان اور پھر خبر دینے کے بعد ملنے والی دھمکیوں اور دباو کی وجہ سے یہاں صحافت کرنا آسان نہیں ،
اس میں جنون کا ہونا لازمی ہے۔اس میں دلخراش واقعات ، مشکل وقت سہنے ، سختیاں جھیلنے کا جذبہ ہونا چاہیے، دوسری صورت میں صحافت سے وابستہ افراد ذہنی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور بدقسمتی سے انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کے مسائل بیان کرتے کرتے خود مسائل کا شکار بن رہے ہیں۔
ماہرین صحت کہتے ہیں کہ صحافی نامساعد حالات کی وجہ سے ذہنی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ صحافیوں کو اپنی ذہنی صحت کے حوالے سے خود آگاہ ہونا بہت ضروری ہے، ان کی اپنی ذہنی صحت سے لاعلمی ہی انہیں گزرتے وقت کے ساتھ پیچیدہ بیماریوں کا شکار بنا رہی ہے
کام کے دبائو اور کام کی وجہ سے ملنے والی دھمکیوں سے ڈپریشن میں مبتلا ہونے والے ایک صحافی بتاتے ہیں کہ انہیں بچپن سے ہی میڈیا میں کام کرنے کا شوق تھا ۔ پھر قسمت نے ایک دن ساتھ دیا ۔اور میں ایک نجی ٹی وی چینل میں بطور کیمرہ مین کام شروع کردیا۔ میں کافی عرصہ تک کیمرہ مین کی فیلڈ کے ساتھ منسلک رہا ۔ میں مختلف ایونٹس کورکرتا رہا کام چلتا رہا لیکن تسکین نہیں ہو پاررہی تھی اندر سے ہمیشہ کچھ نہ مکمل کی آواز آرہی تھی۔ پھر میں نے کسی دوست سے ذکر کیا کہ یار میں رپورٹر بننا چاہتاہوں ۔ اس نے کہا کہ آپ تو صرف گریجویٹ ہو اس کے لیے جنرل ازم میں ایم ہونا لازمی ہوتا وہ کرناپڑے گا ۔ پھر میں نے ایم جنرل ازم میں داخلہ لے لیا ساتھ کیمرہ مین کاکام کرتا رہا اور پڑھتا رہا ۔ پھر ایک دن میں نے ایم جنرل ازم کرکے باقاعدہ طورپر رپورٹنگ کا آغاز کردیا ۔ جیو ٹی وی سمیت تمام بڑے اداروں کے لیے رپورٹنگ کرتا رہا۔ان دنوں میں بول ٹی وی میں ڈپٹی بیورو چیف ہوں۔نیوز کا کام مکمل پریشر کا ہوتاہے ، اعصاب مضبوط ہونا ، پر اعتماد ہونا تمام مشکلات حالات میں کام کرنےلیے ہروقت تیار رہنا چاہیے۔میں یہ تمام پریشر برداشت کرتارہا لیکن کام کی ذیادتی کہیں ، بےاحتیاطی کہیں یا کچھ اور اپنے لیے وقت نہ نکالنے کے باعث مجھے پچھلے دنوں ہارٹ اٹیک ہوا ۔اب آہستہ آہستہ ریکور کررہاہوں۔صرف بول ٹی وی کے ڈپٹی بیورو چیف عاصم فاروق بھٹی ہی نہیں اس جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں اس سے قبل ہم نیوز کے ڈائریکٹر نیوز ریحان احمد کو ہارٹ اٹیک ہوا اسلام آباد میں ، اے بی این کے ڈائریکٹرنیوز محسن نواز کو ہارٹ اٹیک ہوا ، ایگزیکٹو پروڈیوسر اے آروائے عامر شیخ کو بھی ہارٹ اٹیک ہوا تھا اس کے علاوہ نیوز روم میں کام کرنے والے افراد شوگر ، ہائی بلڈ پریشر کے خبریں آئے روز منظر عام پر آتی ہیں۔
ان
کی طرح ٹیلی ویژن کے سینئرصحافی سید سبط حسان رضوی کہتےہیں کہ سب سے ذیادہ
دبائو ہمیں اس بات کا رہتا ہےکہ کوئی خبر ہم سے مس نہ ہوجائے۔ جب آپ الیکٹرونک
میڈیا کے جنرل ازم کی بات کرتےہیں تو بریکنگ کی ایک دوڑ ہے۔
جس میں سب آگے بھاگنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔لازمی سی بات ہے آپ کے ادارے کی جانب سے بھی دبائو ہوتا ہےکہ آپ نے پہلے خبر دینی ہے۔اس کا پریشر ذہنی طور پر بھی جسمانی طورپر بھی آپ کو تھکا دیتاہے چڑ چڑا پن ویسے ہی طبعیت میں آجاتاہے۔جب آپ دفتر میں بھی ہوتےہیں ایک کام کررہے ہوتے ہیں ابھی وہ مکمل ہی نہیں ہوا ہوتا ہے تو دوسرا کہیں بریکنگ ہوگئی وہ نیوز کنفرم کرکے دینی ہوتی ہے ساتھ میں کوئی آواز دیتاہے وائس اوور پیکج کا بھی کردینا مطلب کام کے اوپر کام دیا جاتاہے اور یہ سلسلہ جب تک دفتر یہاں تک گھر پہنچو پھر بھی جاری رہتاہے۔ہمارے ملک میں صحافیوں کو شدید ذہنی دبائو اور نفسیاتی مسائل سے بچنے کےلے سائیکوتھراپسٹ کا فقدان ہے اس جانب حکومت اور صحافتی تنظمیں توجہ دے رہی ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ بیدار جوکہ کلینکل سائیکالوجسٹ اور ٹرینر ہیں انہوں نے سی اےجے میں صحافیوں کو کائونسلنگ کے سیشن کرائے ہیں کہتی ہیں اپنے کام کے دبائو کی وجہ سے صحافیوں کو علم ہی نہیں ہوتاہے کہ انکو اپنی ذہنی صحت کی وجہ سے جسمانی امراض ہونے لگتے ہیں ہیں جن میں چڑ چڑا پن ، غصہ آنا ، ناامید ہونا ، مائیگرین ، کمردرد، تیزابیت اور اضطراب اپنے کام کو ٹھیک طرح سے نہ کرپاناشامل ہے۔
اسی حوالے سے سینئر تجزیہ کار اویس توحید کہتےہیں کہ جو سب سے ذیادہ پرابلم ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے میڈیا کا جو ماڈل ہے وہ اسٹیٹ آن میڈیا سے اسکا ٹرانزیشن ہوا سیٹھ آن میڈیا اور وہ سارا جو ہے کورپوریٹ سیکٹر کے ڈکٹیٹ پر ہوتاہےسوشل اور پولیٹیکل کلائوڈ ذیادہ تر میڈیا ہائوس کا ظہور سیاسی بنیادوں پر ہوتاہے۔
اس لیے دھڑا دھڑ چینل کوئی گھی والا کوئی سگریٹ والا
کوئی سونے والاکوئی فلاح کوئی فلاح اس کے
اندر سب سے بڑی پرابلم یہ ہے کہ دور دراز علاقوں میں نائین الیون کےبعد سب سے بڑی
اسٹوری جو ہےوہ خیبرپختونخواہ یا ہمارے
سابق قبائلی علاقے اور بلوچستان صوبے کے اندر لڑی گئی۔سندھ کے اندرون علاقوں میں
وہاں کے جتنے رپورٹر تھے انکو کوئی پرمنٹ
ایمپلائی منٹ نہیں دی گئی ایک وجہ یہ ہے اس کا مطلب آپ نے انکی فنانس ان سیکیورٹی
انکی کی گود میں رکھ دی۔ جب وہ جان سے جاتے تھے پھر آپ بریکنگ نیوزنشر کرنا شروع
کردیتے تھے۔ یہ بہت افسوسناک بات ہے۔ نہ آپ کو پیسے دیتےہیں ذیادہ تر وہ لوگ جن
کو او ایس آر کہا جاتاہےیعنی آئوٹ ڈور
اسٹیشن رپورٹر یا پھر اسٹنگر انکو کوئی کنٹریکٹ بھی نہیں دیتے تھے۔جب انکو ہراسمٹ ہوتی تھی انکو
دھمکیاں براہ راست دی جاتی ہے پھر مختلف لوگوں سے رابطہ کیا جاتاہے جن میں مشہور
جنرلسٹ شامل ہوتے ہیں۔اس میں ذیادہ تر این جی اوز یا فلاحی ادارے ہیں جو سیفٹی اور
سیکیورٹی کے نام پر بڑے بڑے سیمنیارز کراتے ہیں انہوں نے اب تک صحافیوں کو ایسا
شلٹر فرااہم نہیں کیا جہاں انکو باقاعدہ ریلیف مہیا ہوسکیں تو صحافی نفسیاتی الجھن
کا ہی شکار ہوگا۔
صحافیوں کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے حوالے سے سینئر رپورٹر عاطف حسین کہتےہیں کہ سب سے ذیادہ پہلا دبائو جو رپوٹر کے اوپر ہوتاہے وہ خبر پہلے دینےکا ہوتاہے اب ظاہری سی بات ہے ایک دبائو ادارے کی جانب سے یہ بھی ہوتاہے وہ خبر پھر مستند ہونی چاہیے
مستند ہونے کے بھی کئی پیرامیٹر ہوتے ہیں۔ وہ خبر ہم
کسی سے منسلک کریں یا ترجمان سے یا پھر
کسی سیاسی رہنما نےدی ہے۔ اس خبر کی تصدیق کرنا بھی ایک انتہائی مشکل کام
ہوتاہے۔ ہمارے یہاں عمومی طورپر جو سرکاری افسران ہوتےہیں وہ خبر کو چھپانا چاہتے
ہیں۔خبر بتانے کا رواج کم ہے۔ کبھی بھی صحافی کا وقت فکس نہیں ہوتاہے وہ ڈیوٹی
ٹائمنگ سے بڑھ کر ہی کام کررہاہوتاہے۔ کھانے پینےکے اوقات کار بھی ٹھیک نہیں ہوتے
ہیں اس کے علاوہ اگر کسی کا انتقال ہوجائے اس میں شریک نہ ہوئے پائے تو ذہنی الجھن
کا شکار ہوتے ہیں ۔ گھر کادبائو گھر میں والد بچہ بہن بیگم بیمار ہو تو وہ الگ
پریشانی ہوتی ہے چھٹی کا ایشو ہوتا بارش ، گرمی کی شدت ذیادہ ہو کام کا لوڈ ذیادہ
ہوتا ہے میراتھن کوریج کےدوران آپ کا جسم تھک رہا ہوتاہے آپ کا ذہن اس چیز کو
محسوس کررہاہوتا لیکن آپ کو وہ خبر دینی ہوتی ہے کیونکہ ہم صحافی ہے یہ ہمارا کام
ہے بروقت خبردینا۔
دینی ہوتی ہے کیونکہ ہم صحافی ہے یہ ہمارا کام ہے بروقت خبردینا۔
ان کی طرح پروڈیوسر ہم نیوزعمران اطہر منگی کہتےہیں کہ صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں نہ چاہتےہوئے بھی نفسیاتی الجھن کا شکارصحافی ہوتاہے۔ صحافی رپورٹ کررہاہوتاہے ہمارے معاشرے میں پھولوں کی روز نمائش تو کم ہوتی ہےالبتہ مہنگائی کا جن سر چڑھ کر بولتا، بھوک افلاس سے تنگ آکر لوگ خودکشی کرلیتے، گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے آئے روزمظاہرہ ہوتا، قلت آب ، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ، سیوریج لائن کے مسائل ، گندگی ،لوٹ مار ، ڈکیتی کے واقعات روز رپورٹ کرنے ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ قدرتی آفات ، سیلاب ، زلزلہ یا پھر کہیں آگ لگی ، کوئی بلڈنگ گری ، کوئی حادثہ پیش آیا یا پھر کہیں بم بلاسٹ ، ٹارگٹ کلنگ ، امن وامان کی مخدوش صورتحال یہ سب ایونٹ کور کرنا کسی عام آدمی کاکام نہیں ہے میں سمجھتاہوں صحافت میں یا پھر میڈیا میں کام کرنا آسان نہیں ہوتا اور ہر کوئی یہ کام کر بھی نہیں سکتا ۔ نیوز روم کا ماحول خاصہ پریشر دبائو اورٹینشن والا ہوتاہے جس کے اثرات ڈائریکٹ ایک صحافی کےذہن پر اثر انگیز ہوتےہیں۔ لیکن اگر صحافی تھوڑی ترتیب اپنی زندگی میں بنا لیے تو ان بیماریوں سے بچا جاسکتاہے ، جیسے واک کرے یا کوئی ورزش 24 گھنٹوں میں کم از کم 30 سے 45 منٹ ورزش لازمی کریں۔ قدرت کے نظاروں سے محظوظ ہو۔ خوب آرام بھی لازمی کریں، کام سے تھک گئے ہیں تو وقفہ لیے۔پرسکون رہےموسیقی سنیں، من پسند کتابیں پڑھیں، فلیمیں دیکھیں وہ کام کرے جن کوکرکے اسی خوشی ملے۔
وائس آف امریکہ کےلیے کراچی میں کام کرنےوالی جنرلسٹ سدرہ ڈار کہتی ہیں کہ سیفٹی جنرل ازم میں صرف آپ کی جسمانی اور ذہنی تربیت نہیں ہوتی اس میں آپ کو یہ بھی بتایا جاتاہے آپ نے فیصلہ کیسے لینا آپ جس جگہ پر کھڑے ہے وہاں پر آپ کا کردار کیا ہونا چاہیے آپ کوکیا کرناہے اور کیا نہیں کرناہے۔اگر آپ کسی خطرے میں موجود ہےتو اسے کیسے کور کرے گے۔ بہت سے لوگ ا س بات کو نہیں جانتے ۔پشاور پاکستان کا وہ شہر ہےجو دہشت گردی سے سب سے ذیادہ متاثر ہوا ہے وہاں کے صحافی ذہنی الجھنوں کا شکاررہے ہیں انکے لیے دوہزار پندرہ میں کمپیٹنس اینڈ ٹراما سینٹر فار جنرلسٹ کا اہتمام کیاگیاتھا اسے پروگرام میں رویوں پر کام کیا جاتا تھا کہ وہ غصے اور دباؤ سے کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں اور ایسی صورت میں ان کا ردعمل کیا ہونا چاہیے۔ایسے پروگرام کا انعقاد دفاتر اور پریس کلب میں ہوتے رہنا چاہیے۔
ماہرین صحت کے مطابق نفسیاتی الجھن سے نکلنے کے لیے عام علاج یہ بھی ہے۔
سوچ کے نمونوں اور رویے پر کام کرنے کے لیے علمی رویے کی تھراپی، معاونت اور افہام و تفہیم پیدا کرنے میں مدد کے لیے فیملی تھراپی، گروپ تھراپی، انفرادی تھراپی، ماضی کے مسائل اور موجودہ خیالات اور طرز عمل سے ان کے تعلق کو دریافت کرنے اور سمجھنے کے لیے سائیکوڈینامک تھراپی، سپورٹ گروپس اور ٹاک تھراپی شامل ہیں۔
صحافیوں
کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے حوالے سے سینئرصحافی اور معروف پروڈیوسر سید عابد
مجتبیٰ کہتے ہیں کہ اعصابی طور پر متاثر ہوتے ہیں ، مزاج چڑچڑا ہو جاتا ہے
، بدمزاجی بڑھ جاتی ہے ۔
اگر یہ کیفیت دائمی اور انتہائی شکل اختیار کرلے تو ماہرین کے مطابق یہ کسی
باقاعدہ طبی حالت کی جانب اشارہ ہوسکتی ہے، جیسے کہ اضطراب (انزائٹی) اور افسردگی
(ڈپریشن)۔
یہ باقاعدہ تشخیص شدہ ذہنی مسائل ہیں، جس کے لیے علاج کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اگرچہ چڑچڑے مزاج کی علامات دور کرنے کا کوئی باضابطہ علاج نہیں ہے، لیکن کئی احتیاطی تدابیر اختیار کرکے آپ اس صورتِ حال پر قابو پاسکتے ہیں۔
کائونسلنگ تھراپی کی ضرورت:
شعبہ صحافت سے منسلک افراد کو ذہنی دبائو سے نکالنے کےلیے کائونسلنگ سروس میسر نہیں ۔صحافی دبائو کے تحت کام کرتے ہیں اور اور جو وہ محسوس کرتے ہیں اس کا اظہار نہیں کرپاتے۔
اس کے علاوہ آئےروز اداروں میں ڈائون سائزنگ ، تنخواہوں میں کٹوتی، تنخواہ لیٹ ملنا، یہ وہ عوامل ہے جو انکے ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں