کوپ 27 زندگی کی بقا کی جانب پہلا قدم

فوزیہ جمیل فوزیہ جمیل

  کوپ 27 زندگی کی بقا کی جانب پہلا قدم


پوری دنیا میں اس وقت ایک ایسا مسئلہ جو عالمی طور پر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

 وہ ہے موسمیاتی اور آب و ہوائی تبدیلیاں۔

دس سال سے زائد عرصے میں عالمی طور پر ان مسائل کا حل نہیں نکالا جا سکا،

 پلاننگز کے ساتھ ساتھ ممالک کا اپنا انفرا اسٹریکچر بہتر سے بہتر بنانے کی تگ و دو میں ہیں اس سلسلے میں ماضی قریب میں ایک عالمی اجلاس بلایا گیا جسے کوپ 27 (Climate Outreach participation) کا نام دیا گیا جو مصر ، شرم الشیخ میں منعقد کیا گیا، 10 نومبر 2022 کو ہونے والی اس عالمی بحث میں قدرتی اور سماجی علوم کے سرکردہ عالمی ماہرین جن میں نورہ فراق عبوری ایگزیکٹو ڈائریکٹر (COP27 9-18 ) | سمندروں، چھوٹے جزیروں کی ترقی پذیر ریاستوں ، ڈاکٹر امیرہ ساواس پروگرامز اور ریسرچ ڈائریکٹر (COP27 10-18 ) جنس . ، دیپایان باسو رے منگنی کے سربراہ (COP27 6-20 نومبر میں) | COP27 مذاکرات، عوامی شرکت اور آگاہی کے ماہر ،نمیرہ حمید منگنی کی مشیر (COP27 6-20 نومبر میں) | توانائی، جنس کے ماہر شامل تھے ۔

جنہوں نے 2021 کے بعد سے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں 10 ضروری نظریات پیش کئے ۔


ایک کلیدی نقطہ بنی نوع انسان کی موسمیاتی تبدیلی برداشت کرنے کی اور اس میں ڈھل جانے کی صلاحیت پر تھی اس کے علاوہ جو نکات بحث کئے گئے۔

 ان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے ناگزیر اثرات، بار بار اور شدید خشک سالی، طوفان اور سیلاب شامل ہیں۔

 یہ سلسلہ بین الاقوامی نیٹ ورکس فیوچر ارتھ، دی ارتھ لیگ اور ورلڈ کلائمیٹ ریسرچ پروگرام (WCRP) نے شروع کی ہے۔

 در حقیقت عالمی طور پر ابھی تک کسی بھی قدرتی آفات کا مکمل حل نکالنا ناممکنات میں سے ہے ،

کیوں کہ مسلسل موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ آب و ہوا میں شدت نے تمام انفرا اسٹریکچر ناکارہ بنا دئیے ہیں،

 ترقی یافتہ ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر زمینی تباہی دیکھنے میں آئی ہے

 اور جہاں تک ترقی پزیر ممالک کی بات ہے تو وہاں ابھی تک موسمیاتی تبدیلی اور اس کی وجہ سے تباہیوں کو بطور قدرتی آفات سمجھا ہی نہیں گیا ہے،

ابھی تک پاکستان میں مسلسل ہونے والی خشک سالی اور ہر سال سیلابی تباہ کاریوں کو حادثاتی نقصانات کے طور پر لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

 جس طرح کوپ 27 کے اجلاس میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے ایگزیکٹو سیکرٹری سائمن اسٹیل نے کہا "سائنس موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے بارے میں ثبوت اور ڈیٹا فراہم کرتی ہے، لیکن یہ ہمیں آلات اور علم بھی دیتی ہے کہ ہمیں اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔"۔