پی ٹی آئی کی حکومت بھی رانگ نمبر نکلی

عمران عمران

پی ٹی آئی   کی حکومت بھی رانگ نمبر نکلی

پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی  پارٹی  کے طوپر 2018 کے عام انتخابات میں ابھر کر سامنے آئی۔ جس کے ساتھ نوجوان نسل کا جنون کی حد تک جذباتی لگائو رہا۔نوجوان نسل سسٹم بدلنا چاہتی تھی تبدیلی چاہتی تھی ملک کو ایک بہترین سسٹم کے تحت چلتا دیکھنا چاہتی تھی جہاں پر بہترین روزگار ہو، تعلیم صحت کی سہولیات ہو قانون کی حکمرانی ہو عدالتیں آزاد ہوں تمام ادارے اپنے حدود میں رہ کر کام کرسکیں ۔

اس کے لیے کہتےہیں کہ عمران خان نے 20 سال تک طویل جدوجہد کی جس کے نتیجے میں دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں پاکستان میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئے ۔حلف اٹھالیا عہدہ سبھالیا لیکن وہ تبدیلی نہیں آئی جو عام جلسے جلسوں میں جس کا ذکر ہوا کرتاتھا عام آدمی کی بہتری کی جو بات کی جاتی تھی اس میں کوئی تبدیلی اور بہتری نہ لائی جاسکی ۔وقت گزرتارہا ، چیزیں جیسی تھی ویسی ہی چلتی رہی ۔

حکومت صرف اپوزشین کو ہر مقام ہر جگہ پر چور ڈاکو اور برے برے الفاظ اور القابات سے پکارتی نظر آئی ۔الزام پر الزام لیکن ثابت کچھ نہ کرسکی۔

وقت تیزی سے گزرتارہا تبدیلی کا سفر تبدیلی کے راستے میں کہیں گم ہوکر رہ گیا۔وہ خواب جو نوجوان نسل کے اس حکومت کے ساتھ جڑے تھے راستے میں ہی دم توڑتے نظر آئے۔

ایک دوسری پر کڑی تنقید کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کی کال دی ،بڑی تعداد میں عوام کو سڑکوں پر نکالنا شروع کیا،ریلیاں کراچی سے اسلام آباد تک کا سفر طے کرتی نظر آئی مکمل پاور شو کا مظاہرہ کیاگیا ۔

بلاآخر متحدہ اپوزیشن نے ان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی۔

جس کو تین اپریل 2022 کو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے غیرآئینی قراردیتے ہوئے مسترد کردیا  وزیر اعظم کی درخواست پر صدر نے اسمبلی تحلیل کردینے کاحکم صادر قراردیا اور الیکشن کا اعلان کیا جانے لگا ۔ملک  میں ایک بڑا آئینی بحران پیدا ہوگیا ۔جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے سو موٹو لیا اور پانچ روز مسلسل سماعت کےبعد سات اپریل 2022 کو سپریم کورٹ نے قاسم سوری کی رولنگ کو غیرآئینی  قرار دیتے ہوئے اسمبلی  دوبارہ بحال کی اور حکم دیا کہ نو اپریل 2022 کو عدم اعتماد کی پر ووٹنگ کا مرحلہ شروع کیا جائے جس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کی ۔اسمبلی کا اجلاس 12 سے تیرہ گھنٹے جاری رہنے کے بعد عمران خان سے وفاداری کا پرچار کرتے ہوئے اسپیکر ا قومی اسمبلی نے عین وقت پر استعفیٰ دے دیا ۔  اور پیل آف دی چیئر ایاز صادق کو  بنا دیا گیا ۔  تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مرحلہ شروع ہوا  اور اپوزیشن  جماعتیں 174 ووٹ لیکر عدم اعتماد کی تحریک میں کامیاب ہوگئی ۔اور عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے۔

واضح رہے کہ عمران خان 3سال8ماہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے

عمران خان نے ملک کے 22 ویں وزیر اعظم کا حلف 18اگست 2018میں اٹھایا تھا۔اب حکومت چلی گئی پھر مجھے کیوں نکالا کا راگ الاپا جارہاہے۔

اپنی بے بسی معصومیت کو مختلف انداز میں پیش کیا جارہاہے۔

وزیر اعظم عمران خان اپنی تین سالہ کارکردگی میں پبلک کو کیا بتائے گے کہ انہوں نے کیا کیا۔

معیشت کس حدتک مضبوط کی۔گورننس کے ایشو کو کس حدتک حل کرسکے؟قوانین میں کیا ترامیم کی گئی۔میڈیا انڈسٹری کے ساتھ کیا رویہ رکھا گیا جنرلسٹ کے ساتھ کیا کیا گیا ۔پولیٹیکل وکٹمائزیشن  کیسے کی گئی ان کے پاس کہنے کو اب کچھ نہیں بچاہے۔ان کے پاس بتانے اور دیکھانے کے لیے ایسا کوئی کام نہیں جس پر یہ کہہ سکے ہاں ہم نے یہ کیاہے جوکہ پچھلی حکومتیں  ہم سے پہلے نہ کرسکیں۔

عوام کے عدم اعتماد کے معاملے سے دھیاں ہٹانے کی خاطر انہوں نے خط کا ڈرامہ رچا اور کہاکہ ان کو امریکہ نےہٹایا کیونکہ میں اپنے ملک  کی ایک آزاد خود مختیار خارجہ پالیسی لانا چاہتاتھا۔اور امریکہ سامنے ڈٹ گیا ۔میں ماسکو چلا گیا وہ اعتراض کرتے رہے۔پاکستان میں یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جو غالبا لوگ اسے پسند کرتے ہیں ۔بلکل اسی طرح جس طرح کرپشن کا بیانیہ پاکستان میں بےحد پسند کیا جاتاہے ہماری مڈل کلاس کو ہماری اس کلاس کو جن کویہ معلوم نہیں ملک کیسے چلتاہے۔طاقت اور اختیارات کس کے پاس ہوتے ہیں۔پاور کیسے کام کرتی ہے۔ان کو مصنوعی چیزیں ذیادہ پرکشش رکھتی ہیں میں کسی کو این آر او نہیں دونگا ، آصف علی زرداری میرے نشانے پر ہیں ، مولانا فضل الرحمان کو غلط الفاظ میں پکارنا شہباز شریف کے لیے جو زبان استعمال  اسٹیج پر کرتے آئے کیا وہ ایک وزیر اعظم کی شخصیت پر جچتی تھی کہ نہیں ۔میں یہ نہیں کہتاکہ پاکستان میں کرپشن نہیں کرپشن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔جس نے زندگی کے تمام معاملات کو بری طرح متاثر کررکھاہے۔

عمران خان یہ کہتے آئے کہ ہم چار پانچ بڑے لیڈروں کو جیل میں ڈال دینگے اور ان کے پیٹ میں سے پیسہ نکالےگے ایسی مفروضے کی کہانیاں بننا لوگوں کو یہ بیانیہ بےحد پسند آتاہے۔ ملک کے بہت بڑے مسائل کو اس انداز میں سادہ طریقےسے لوگوں پر بیچ دینا۔

عمران خان کی امریکہ مخالف جو تھیوری ہے وہ ناکام تھیوری ہے۔اس سے یہ نجات نہیں حاصل کرسکتے ہیں اپنی کارکردگی کے معاملے پر ۔اس طرح سے لوگوں کو احتجاج پر اکسانا سڑکوں پر نکالنا یہ الیکشن کی تیاریوں کے مراحل میں تو سود مند ثابت ہوسکتی ہیں لیکن اس سے ان کی کارکردگی پر کوئی سوال نہ اٹھائے یہ ممکن نہیں ہوسکےگی۔

ان کی کارکردگی کسی طور پر بہتر نہیں رہی ہے۔سوائے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کہ کبھی کبھی جلسے جلوس دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا کہ جیسے گلی میں دو عام آدمی لڑ پڑے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو بہت برے برے الفاظ سے پکار رہےہو جیسے۔

انہوں نے اپنے دور اقتدار میں دوسروں پر بہت کیچڑاچھالا لیکن عملی تبدیلی کہیں بھی نظر نہیں آئی نہ یہ کام کرسکے جس سے عام آدمی کی زندگی بہتر ہوسکے سوائے مہنگائی کے طوفان کے۔

پاکستان میں لوگ ہوا کا رخ دیکھ کر چلتےہیں موسم بدلتاہے ہوا کا رخ بدلتاہے لوگ اس حساب سے چلتے ہیں۔بلکل اسی طرح آنے والے دنوں میں ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں لوگوں جاتے ہوئے دیکھائی دینگے۔

عام تاثر یہ دیا جارہاہے کہ عمران خان ایک اناء پرست اور ضدی انسان تھا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ جو میں کررہاہوں وہ ٹھیک ہے اس پر بات یا ڈائیلاگ نہیں ہوسکتا جس کی وجہ سے وہ اپنی حکومت کھوہ بیٹھے۔

آئے روز سڑکوں پر احتجاج کی کال دینے سے کیا یہ دوبارہ اقتدار میں آسکےگے یا نہیں لیکن ان کے احتجاج میں شریک ہونے والی عوام یہ ضرور سوچ لیے کے تین سال آٹھ ماہ اقتدار پر برجمان  انکے ہونے سے انکی زندگی میں کیا تبدیلی آئی اور آگے وہ مزید کیا تجربہ کرنا چاہ رہے ہیں ۔