وہ کسی سانچے میں ڈھل نہ سکا۔

چہرہ ڈیسک چہرہ ڈیسک

وہ کسی سانچے میں ڈھل نہ سکا۔

وہ کسی سانچے میں ڈھل نہ سکا۔

تحریر۔ عاجز جمالی

کچھ لوگ پوری زندگی اپنے من کو راضی کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور ان کی رخصتی کے بعد یہ تعین کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے کہ آیہ انہوں نے اپنے من کو راضی کردیا تھا یا نہیں بلکہ ان کے شعور میں دانستہ طور پر یہ بات ہمیشہ آباد رہی کہ اپنے من کو راضی رکھنے سے ہی ان کا رب راضی رہے گا۔

 وہ اس فکر سے ہمیشہ وابستہ رہے جو صوفیاء کی فکر ہے یعنی کہ “ رب دلاں وچ وسدائے” اختر بلوچ ایسا ہی ایک من موجی انسان تھا جس نے کبھی بھی کس کا دل دکھانے سے گریز کیا ہوگا۔

 دس پندرہ برس قبل وہ خاموشی کے ساتھ مجھ سمیت لاتعداد صحافیوں کے دلوں پر دستک دے کر سب کا یار غار بن گیا اور پھر ایسے ہی خاموشی کے ساتھ ہم سب کے دلوں کو دھڑکتے چھوڑ گئے بقول شیخ ایاز کے دو بھیگے آنسو پھر بھی ہوں گے ، یہ مت سمجھنا کہ استقبال نہ ہوا ہوگا” اختر بلوچ کی ہمارے سامنے سب سے پہلی شناخت انسانی حقوق کے کارکن کی تھی جب وہ حیدرآباد میں انسانی حقوق کمیشن کے سرگرم رکن تھے۔

 جب وہ کراچی آئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ وہ غضب کے لکھاری بھی ہیں لیکن ان کی ہر تحریر تحقیق پر مشتمل ہوتی تھی۔

 ان کے پسند کا موضوع ہمیشہ تاریخ رہا۔ تاریخی عمارتیں۔ تاریخی شخصیات۔

 تاریخ کے گمنام کرداروں کا کھوج لگانا۔

 پرانی کتابیں تلاش کرکے پھر ان کے اندر سے نئے موضوعات تلاش کرکے ان کے پیروں کے نشانات پر سفر جاری رکھتا تھا اور پھر لکھتا تھا۔

 اختر بلوچ کا زیادہ وقت پریس کلب میں صحافیوں کے ساتھ ہی گذرتا رہا وہ اپنے تھیلے میں دو چار کتابیں ہمیشہ رکھتا تھا۔

کتابوں پر ایک بات یاد آئی کہ گذشتہ برس انہوں نے ہمارے معزز ساتھی سعید جان بلوچ کے توسط سے اپنی پوری لئبرری کو کراچی پریس کلب میں موجود کراچی یونین آف جرنلسٹس کے دفتر میں منتقل کردیا۔

لوہے کی بڑی بڑی الماریوں کے ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں سندھی۔ اردو۔ اور انگریزی کتابیں تھیں۔

 ہم نے اختر کے ساتھ میٹنگ جی کہ ان کتابوں کا کیا کرنا ہے ؟ کہنے لگا کہ ان کو پروفیشنل لئبریرین کے ذریعے ترتیب دلوائوں گا۔

 میں نے پوچھا کہ کیا لیبرری آپ کے یو جے کے حوالے کر رہے ہیں تو ہم خود نئی الماریاں بنوا لیں گے۔

کہنے لگے کہ کتابیں کیسے دوں گا یہی تو میرا اثاثہ ہیں۔ کئی ماہ تک تو وہ کتابیں وہاں پر ہی رہیں لیکن کراچی پریس کلب کی نئی تعمیرات کے سلسلے میں جب کلب نے کے یو جے کا دفتر منہدم کرنے کا فیصلہ کیا تو ہم نے اختر بلوچ کو کہا کہ آپ اپنی کتابیں کہیں منتقل کردیں پھر نہ جانے اب ان کا قیمتی اثاثہ کہاں پر پڑا ہے ؟

 

اختر بلوچ سے میری بات بیک وقت سندھی اور بلوچی میں ہوتی تھی۔ وہ سرائیکی بھی بول لیتے تھے۔ وہ جب موڈ میں ہوتے تھے تو گاتے بھی تھے۔ رقص تو اختر بلوچ کی زندگی تھی۔ ہمارے مرحوم دوست ارشاد گلابانی کے بعد اختر بلوچ ہی صحافیوں کی محفلوں کو رقص کے ذریعے گرماتے تھے۔ اس حد تک ایک ایک کو پکڑ کر اپنے ساتھ رقص کرواتے تھے۔ میرے جس خشک مزاج شخص کو بھی نہیں چھوڑا۔

اساں نچ کے یار منایا ہے

سارا دل دا کفر گنوایا ہے۔

اختر بلوچ کی کتاب “ کرانچی والا” ایک منفرد کتاب ہے جس میں کچھ مضامین ہیں وہ ڈان ڈاٹ کام کے مستقل لکھاری تھے۔

اختر ایک فری لانسر صحافی۔ محقق اور بلاگر تھا۔ وہ عام صحافیوں کی طرح سیاست دانوں اور افسران سے ملنے ملانے کی رسم سے دور دور رہتا تھا۔

 اختر کو کبھی بھی کسی ایک سانچے میں ڈھالنا مشکل تھا۔

 وہ پوری زندگی کسی بھی سانچے میں ڈھل نہ سکا۔ اس کا اپنا ہی نظم و ضبط اور اپنا دستور تھا اپنا ہی انداز اور زندگی کا اپنا طے کردہ اصول تھے۔

 بقول نہ دور کے صوفی شاعر حافظ نظامانی کے

اسان جي دین ۽ ایمان جو دستور پنھنجو آ

( ہمارے دین اور ایمان کا دستور اپنا ہے)

اختر بلوچ کی زندگی ہمیشہ مالی تنگدستی میں گذری لیکن اس نے کبھی بھی مال کمانے کی خواہشوں کی غلامی نہیں کی۔

 اس موضوع پر ایک بار ہماری پریس کلب کے کینٹین گپ شپ ہو رہی تھی۔ کہنے لگا کہ “ جمالی صاحب پیسہ بولتا ہے مگر پیسہ ہی ڈبوتا بھی ہے۔ وہ ایک کھرا اور سچا آدمی تھا ہمیشہ کی طرح آج بھی کھرا اور سچا انسان معاشرے کا “ ان فٹ” آدمی کہلاتا تھا۔ اور پیارے اختر بھائی بھی ہمارے سماج میں ان فٹ آدمی تھا۔

اختر ایک صوفی منش پڑھا لکھا اور دلبر قسم کا لکھاری تھا۔

ہم جب بھی گپ شپ کرتے تو ان کی تحریروں پر ہی بات ہوتی تھی۔ کبھی یہودیوں کی قبرستان پر تو کبھی پارسیوں کے اسکولوں پر۔

 کبھی ہندوؤں کی عبادت گاہوں پر تو کبھی کراچی میں بسنے والے کم آبادی والے لوگوں پر۔ معاشرے کے ان طبقات۔ ان کمیونٹیز پر لکھا جو کسی دور میں شہر کراچی کی تعمیر اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتے تھے لیکن ہم سب نے ان کو بھُلا دیا تھا مگر اختر نے اپنی تحریروں میں ان کو زندہ رکھا۔

ہم نے گذشتہ چند برسوں میں کئی بے بہا موتی اور ہیرے کھو دیئے آج اختر بلوچ گیا کل ہم کو بھی جانا ہے یہ ہی زندگی اور موت کا سفر ہے۔ انسانوں کے آنے اور جانے کے سفر کو جاری رہنا ہے۔

کائنات لاکھوں برسوں سے خالق اور تخلیق کے عمل سے گذر رہی ہے۔

 ارتقا اپنی منازل طے کرکے نئی منازل کی متلاشی ہے۔ اور پھر سندھو کی موجیں جب گہرے ساگر میں جذب ہوجاتی ہیں تو قطرے کی اہمیت کو ہم بھول جاتے ہیں۔

 لیکن ہم اپنے یار اختر بلوچ کو شاید کبھی بھی بھلا نہ سکیں۔

دنیا ہے موج دریا قطرے کی زندگی کیا