کسی خطے یا علاقےکے بارے میں معلومات نہ ہوتو اس پر بات کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اس میں بے وجہ اس علاقے کے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔
ہر انسان اپنی زمین مٹی، لوگ ،علم فنون،تہذیب اور ثقافت سے بےحد محبت کرتاہے۔غالب جیسی فلم اور ٹی وی سیریل میں کام کرنے والے بے حد پیارے اداکار نصیرالدین شاہ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بےحد پسند کیا جاتا رہاہےلیکن حال ہی میں انہوں نے سندھ کے حوالے سے جو اپنے ایک پروگرام میں دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہےکہ سندھی زبان پاکستان میں نہیں بولی جاتی ہے ۔
جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے شاید پاکستان میں اردو کے بعد اگر کوئی زبان ترقی کررہی ہے وہ سندھی ہے جو نہ صرف بول چال بلکہ علم ادب اور فنون کی زبان بن کر ابھر آئی ہے یہی وجہ ہے کہ سندھی دنیا میں جہاں بھی بستےہوں اپنے علاقے اپنی مٹی اپنی زبان اور ثقافت سے بےحد محبت کرتے ہیں ۔
پاکستان میں جس تیزی سے سندھی ادب میں کتب چھپتی ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ۔
مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے .
مدیحہ گوہر 1956ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے علم فنون اور انگریزی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر لندن یونیورسٹی سے تھیٹر سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھنی والی خاتون اداکارہ تھی ۔
اپنے کام نام اور مقام کی وجہ سے انہیں آج بھی دنیا بھر میں جانا پہچانا جاتاہے۔
مدیحہ گوہر نے پاکستان کی مقامی زبانوں پر بات کرتے ہوئے پاکستان ٹیلی وژن کے پروگرام میں کہا تھا کہ پنجابی میں ایم اے کرنے کو ہمارے یہاں معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ سندھی میں ایم اے کرنے پر سندھی فخر کرتے ہیں سندھی بولنے پر فخر کرتے ہیں لیکن ہمارے یہاں اسے پینڈو اور پتا نہیں کن کن ناموں سے پکارا جاتاہے جب تک آپ اپنی زبان اور کلچر پر فخر نہیں کرونگا کے آپ ترقی نہیں کرسکوں گے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ سندھی زبان کو بولنا لکھنا اس میں تخلیق کا سفر کئی صدیوں سے جاری وہ ساری ہے اور آگے بھی رہے گا۔
بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ کے اس بیان پر کہ سندھی زبان پاکستان میں نہیں بولی جاتی ہے اس پر سندھ میں اور سندھ سے باہر بسنے والے افراد کا ردعمل کیا تھا سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لوگوں نے کس طرح شعور کی پرتیں کھولی آئیے اس کا احاطہ کرتے ہیں۔
بھارتی پرگرام نیوز سیزن زی فائیو میں انڈین اداکار نصیر الدین شاہ نے ایک انٹرویو دیا جس پر بولی جانے والی مختلف زبانوں پر بات ہورہی تھی بات کرتے کرتے انہوں نے ایک غلط اسٹیٹ منٹ دے دیا کہ پاکستان میں سندھی زبان نہیں بولی جاتی ختم ہوگئی ہے جبکہ دیگر زبانیں پنجابی ، بلوچی ، اردو ،پشتو ، سرائیکی ترقی کررہی ہیں ۔ ان کے اس بیان پر سندھی ادب ، شوبز، وکلا ء برادری ، ڈاکٹرز صحافی ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے فرد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر نصیر الدین شاہ کی اسٹیٹ منٹ کو غلط قرار دیا اور اسے دلائل سے پیش کیا ۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے ایک صارف نے کہاکہ سندھی نہ صرف ایک مکمل زبان کی صورت میں پاکستان میں موجود ہے بلکہ دور جدید کے ڈیجیٹل دور کی بھی ایک بہترین زبان ابھر کرسامنے آئی ہے۔
سندھ یونیورسٹی میں درس وتدریس سے پیشےسے منسلک ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے کہاکہ سندھ نہ صرف پاکستان میں بولی جانے والی زبان ہے بلکہ یہ ایک سندھ کی سرکاری زبان بھی ہے۔
سورٹھ سندھو نے لکھاہےکہ نصیر الدین شاہ کو سندھ کے بارے میں معلومات نہیں سندھ صوبے میں سندھی ادبی بورڈ ہے، سندھی میڈیا بہترین کام کررہاہے شاہ صاحب اپنی معلومات درست کریں۔
پاکستان کی معروف اداکارہ منشا پاشا نے بھارتی اداکار کی اس اسٹیٹ منٹ کو یکسر مسترد کردیا ۔اور کہاکہ ہم خود گھر میں سندھی بولتےہیں اور یہ اسٹیٹ منٹ بلکل درست نہیں۔
ٹوئٹر پر صارفین کی جانب سے سندھی شاعری اور دیگر ایسا مواد شیئر کیا گیا جس میں سندھی زبان کی اہمیت اور فوقیت کو مد نظر رکھاگیاہے۔
پاکستان کی معروف صحافی ریحام خان نے کہاہےکہ لگتاہے نصیر الدین شاہ کو یہ اسکرپٹ پی ٹی آئی کے کسی عہدے دار نے لکھ کر دیا ہے جس کا نہ سر ہے نہ ہی پیر ۔
سندھ کے سماجی شعور اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پرجاری رد عمل نے بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ کو وضاحت دینی پڑی اور انہوں نے نہ صرف اپنی غلطی کو تسلیم کیا بلکہ یہ فرق بھی بتایا کہ بات کس موضوع پر ہورہی تھی جس میں میرا اسٹیٹ منٹ غلط ہوگیا۔
انکے جاری ٹویٹ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ نہ صرف وہ ایک بہترین اور بڑے اداکار ہیں بلکہ اس سے کہیں ذیادہ وہ ایک بہترین اور بڑے انسان بھی ہیں۔