نسیم
کھرل -سندھی ادب کا ٹالسٹائی لیکن اپنے ہی وڈریرے پن کا شکار-
جسکے
قتل کے بعد ایک خونی باب رقم ہوا
حسن
مجتبٰی
لاریب
وہ سندھی فکشن میں کہانی کا بے تاج بادشاہ تھا۔
پھر وہ سندھ کی دیہی زندگی میں کچے کی زبان ہو
کہ پکے کی، کہ کراچی سمیت شہری زبان اور زندگی وہ اسے پنے پر اتارنے کا اسطرح
پروردگار تھا جسطرح منٹو کی قبر کے کتبے پر لکھا ہے کہ یہاں اردو افسانے کا خدا
دفن ہے۔
خیرپور
میرس ضلعے میں دریائے سندہ کے بیچ کچے میں اسکے اپنے ہی نام سے کہلاںے والی جاگیر
“کیٹی
نسیم کھرل” کے مالک نسیم کھرل کی جب پہلی پہل کہانیاں سندھی جریدوں “روح رہان” اور
“سوہنی “ میں شایع ہوئیں تو پدرشاہی سماج میں کئی پڑہنے والوں نے اسے لڑکی جانا۔
کھرل جسکے آبا و اجداد صدیوں پہلے شاید پنجاب سے نقل مکانی کرکر تالپوروں کی شاہی
والی سندہ میں آکر آباد ہوئے تھے۔
وہ سابقہ مغربی پاکستان ہائیکورٹ کے جسٹس
عبدالرحیم کھرل کا بھتیجا تھا ۔
نسیم کھرل پہلی بار منظر عام پر حیدرآباد میں
ہونیوالے سالانہ جشن روح رہان میں اپنا افسانہ پڑہنے آیا ۔
وہ
چوروں، تھانیداروں، وڈیروں، کسانوں، سیکس ورکروں، انکے گاہکوں،دلالوں، وڈیروں
وڈیریوں، کاری کارو کے شکار عورتوں مردوں، پریمیوں، رہزنوں، رہبر وں کی زبان پر افسانے
میں قدرت رکھتا تھا۔
نسیم
کھرل کی کہانی، چوتیسواں دروازہ جو دریائے سندہ پر جو سکھر بیریج کے دروازوں میں آکر
پھنسنے والی ایک لاش اور پولیس کے مابیں حدود کے مسئلے پر ہے اور پھر آخر میں۔
اسکا
“حل” یہ نکالا جاتا ہے کہ اسے بیریج کے چونتیسویں دروازے کی طرف بہایا جائے!! ایک
شاہکار کہانی ہے۔
اسی
طرح نسیم کھرل کی کہانی “پہلی مراد” ایک کیئرئر رسہ گیر چور کے بیٹے
کی پہلی چوری کے متعلق ہے جو وہ اور کسی کی نہیں اپنے ہی چور باپ کے دوست کی بھینس
چرانے سے کرتا ہے اور جاگنے کے بعد۔
بھینس کے مالک اور کھوجی پائوں اور کھرے کھوجتے
انہی یعنی باپ بیٹوں کے گھر پر آکر کھوج نکالتے ہیں۔
لیکن
بھینس گھر کا فرش کھود کر اور زمین پر گھانس پھونس سے اسطرح چھپائی گئی ہے
جسے
چور وں کی زبان میں اسے “تھم” کہا جاتا ہے کہ تمام جھڑتی لینے اور تکرار و زبان کے
بعد بھی بھینس کے مالک اور کھوجی بھینس کا کھوج نہ لگا سکے۔
کہانی
مین کچے اور سندہ کے چوروں کی زبان۔ کا استعمال کمال اوج پر ہے ۔ “میں تو چوری کے
پیشے میں اتنی چھوٹی عمر میں آیا
کہ
میں نے استرہ بھی آکر جیل میں اٹھایا”۔ یعنی پہلی جھانٹیں بھی آکر جیل میں کاٹیں۔
اسکی
کہانی “گزری ہوئی واردات” جو اصل میں۔ ایک۔ رٹیر تھانیدار اور اسکے رٹیر کانسٹیبل
کے درمیان انجمن ستائش باہمی اور محلے کے شور کرتے کرکٹ کھیلتے بچوں ، جن سے یہ
تنگ لیکن انکے آگے بے بس ہوتے دو رٹیر پولیس عملداروںکے بارے میں ہے۔
لیکن اگر یہ کہانی آج پڑہی جائے تو پیارے
پاکستان کے رٹیر جنریلوں پر فٹ آتی ہے۔
جو
بھی “گزری ہوئی واردات” ہوتے ہیں۔
نسیم
کھرل کی ایک اور کہانی “مساوات” کے عنوان سے ہے ۔
یہ
کہانی بھی ان دنوں شایع ہوئی جب ملک میں ذولفقعار علی بھٹو کی حکومت تھی اور انکے
سیاسی مخالفین کیخلاف پکڑ دھکڑ اور انکی گمشدگیاں زوروں پر تھی۔
کہانی“مساوات” ایک پولیس ایس پی اور اسکے۔ انسپیکٹر کے درمیان ایک فہرست پر گفتگو
ہے کہ اس میں کن ناموں میں سے کس کو اٹھا کر “مقابلے” میں چلا دیا جائے کہ اوپر سے
احکامات ہیں۔
۔
کہ آخر کار نام ایک نوجوان ہندو طالبعلم پر جاکر مئوخر ہوتا ہے۔
“فہرست برابر ہوگئی۔
ویسے بھی آجکل مساوات کا دور دورہ ہے” انسپیکٹر
ایس پی سے کہتا ہے۔
اب
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے نسیم کھرل کی اس کہانی کو اپنی سرکار پر چوٹ محسوس
کی کہ پڑوس کے جاگیردار ہونے کے ناطے بھٹو کو اپنی پرخاش پوری کرنی تھی کہ اسکی اڑ
وس پڑوس میں جاگیریں، کیٹی بھٹو کے ساتھ کیٹی پیر پاگارو، کیٹی کھوڑو، اور کیٹی
نسیم کھرل تھیں، نسیم کھرل کو ڈیفینس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار کیا گیا۔
نسیم
کھرل سندھی زبان کے جدید ادب کے ان بڑے ادیبوں سے ایک تھا جن کے جیتے جی اس زمانے
کے موقر جریدے “سوہنی” نے اپنے خاص شمارے یا نمبر شایع کیے تھے۔ نسیم کھرل نمبر
اور امر جلیل نمبر۔
نسیم
کھرل افسانوی ادب کے ساتھ ساتھ نان فکشن یا غیر افسانوی تحریر میں بھی سندھی نثر
کے بادشاہ تھے۔ انہوں نے تالپوروں کے دور والی خیرپور ریاست میں خواص اور عوام کی
سماجیات پر ایک مضامین کا سلسلہ لکھا تھا۔
جس
میں وہ ایک تالپور امیر کا اپنی پنشن سلسلے میں لندن کے سفر کا قصہ بیان کرتے
لکھتے ہیں کہ کس طرح اس تالپور امیر نے “عجائبات لندن” بیان کرتے اپنی ڈائری میں
لکھا تھا کہ “یہاں بے شرمی اتنی کہ عورتیں گھٹنوں تک ننگی ہوتی ہیں اور چھوٹے بچے
تک انگریزی بولتے ہیں”۔
تالپور
حکمرانوں کے شیل شکار عیش وعورت اور عقیدت و عزاداری پر بھی نسیم کھرل نے نہایت ہی
دلچسپ پیرایے میں قصے بیان کیے ہیں۔ وہ واقعی سندھی ادب کا ٹالسٹائی تھا۔
اسکی
کہانیاں “شبنم شبنم کنول کنول” اور “مکسڈ گرل” یا دیگر بھی شہری زندگی کی گہری
عکاسی ہیں۔
جب
وہ بھٹو کے بدنام زمانہ ڈیفینس آف پاکستان رولز کے تحت جیل سے رہا ہوکر آیا تو میں
اپنے دوست منصور میرانی کے ساتھ اسے رہائی کے مبارک دینے اسکے عالیشان گھر پر ملنے
گیا تھا۔
وہ
نفیس شکارپور ی سفید کرتے میں ملبوس تھا لیکن اسکے کرتے کے دامن پر دوات کا دھبہ
لگا تھا کہ اپنی کہانیاں پارکر و شیفرڈ قلموں سے لکھا کرتا تھا۔
کسے
خبر تھی کہ اسی بے داغ نفیس کرتے پر نیلی دوات کے دھبے والا یہ سندھی زبان کے یکتہ
روزگار عظیم افسانہ نگار بندوق کی گولی کا نشانہ بن جائے گا۔
“نسیم
وڈیرہ تھا اور اپنے ہی طبقاتی انجام پر پہنچا”ایسا بے رعایا اور بے رحم جملہ رسول
بخش پلیجو ہی کہہ سکتا تھا جو انہوں نے نسیم کھرل کی یاد میں ہونیوالے تعیزیتی
ریفرنس میں کہا تھا جو نیشنل سینٹر حیدرآباد میں ہوا تھا۔
نسیم
کھرل کیساتھ ہوا یہ کہ زمین پر قبضے کے تنازعے پر ناریجو قبیلے کے ایک نوجوان رب
رکھیو ناریجو نے اسے اسکی زمینوں پر بنی رہائش پر اسے سوتے میں قتل کردیا۔
کہتے
ہیں کہ رب رکھیو ناریجو جو گریجوئیٹ تھا بعد میں ڈاکو جاکر بنا اور کھرل اور
ناریجو برادریوں کے درمیاں ایک نہ ختم ہونیوالی خونریزی شروع ہوگئی جو خیرپور میرس
اور لاڑکانہ اضلاع کی سرحد ایک طویل عرصے تک جاری رہی۔
اس دوران ناریجو قبیلو پر ختم نہ ہونیوالے پولیس
آپریشنز، قید و بند اور ناریجو قبیلے میں سے رب رکھیو ناریجو اور نظرو آریجو سمیت
ڈاکوئوں کی نسل بھی پید ا ہوئی۔
لیکن انکی آڑ میں یہ بھی سچ ہے ناریجو ئوں کی
ایک سے زیادہ نسل بشمول مرد،عورتیں بچے بغیر کسی جرم کے ان آپریشنز اور خونریزیوں
کے شکار ہوئے۔
تاہم خیرپور میرس میں انیس سو اسی اور نوے کی
دہائی میں آنیوالے ایس ایس پی پولیس ریٹائرڈ میجر امتیاز ملک نے بقول انکے اور
خیرپور میرس کے کئی لوگوں کے علاقے میں قدرے امن قائم کیا اور مجرم اور غیر مجرم
ناریجوں میں تمیز کرتے ہوئے انپر سے آپریشن ختم کیا۔
لیکن ملک امتیاز جسکے
خانگی محافظ ناریجو تھے پر بھی ناریجو ڈاکوئوں کی سرپرستی کے الزامات لگے اور
انکوائریاں بھی ہوئیں۔
ُ
یہی وہ ریٹائرڈ میجر امتیاز تھا جو بعد میں بینظیر بھٹو کا چیف سیکیورٹی افسر بھی
تھا اور انپر راولپنڈی لیاقت باغ میں خودکش حملے آور قتل کے وقت انکے ساتھ ہی انکی
لینڈ کروز پر سوار تھا (یہ کہانی اور ہے کہ بینظیر بھٹو پر حملے کے وقت انکے ساتھ
سوار سب کے سب افراد ،سوائے انکے ملازم عرس کے، آج تک “سوالیہ “نشان بنے ہوئے
ہیں۔)۔ وہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں اسلام آباد کے ایس ایس۔ ایس پی تھے۔
لیکن
اس سے قبل دلچسپ بات یہ ہے کہ انکو مظفر حسین شاہ کی وزارت اعلی تلے سندہ میں فوجی
آپریشن کے دنوں کے دنوں میں کھڈے لائین لگا کر افسر بکار خاص مقرر کیا گیا تھا کہ
انپر ناریجو برادری سے تعلق رکھنے والے مجرم پیشہ افراد کی سرپرستی کرنے کا الزام
تھا۔
لیکن
عام ناریجو لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ وہ پولیس اور وڈیرہ کھرل برادران کے دوہرے
مظالم کا شکار تھے۔
ایک
طرح سے ناریجوں پر غیر اعلانیہ نہ ختم ہونیوالا مارشل لا نافذ تھا۔ یہ وہ دور تھا
جب سندہ کو کرنل چلاتے تھے اور اب بھی وہی چلاتے ہیں۔
شمالی سندہ میں ان دنوں متعین ملٹری انٹیلیجنس
کے کرنل إسحاق نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ میجر امتیاز علاقے میں ناریجو ڈاکئوں
اور مجرم پیشہ ناریجوں کی سرپرستی کرتا ہے۔
لیکن
خود میجر امتیاز کا کہنا تھا کہ اسکے خلاف علاقے کے وڈیرے، پیر پاگارو، اور نسیم کھرل
کے بھائی ہوگئے تھے کہ اس نے خیرپور میرس کے کچے کے علاقے میں گلو سیال تھانے کی
حدود میں کھرلوں کی زمین پر چھاپہ مار کر مغوی بازیاب کروائے تھے۔
بینظیر
بھٹو کے ہی دوسرے دور حکومت میں ہی بدین میں رب رکھیو ناریجو ایک جعلی پولیس
مقابلے میں مارا گیا تھا۔
جبکہ نسیم کھرل کے ایک بھائی رشید کھرل کو سندہ
کا سیکرٹری داخلہ بنایا گیا تھا۔
تب رشید کھرل کے قریبی حلقوں میں یہ کہانی اڑ
نکلی تھی کہ وہ زرداری اینڈ کمپنی کو نوٹوں سے بھرے بریف کیس دیکر سندہ کا ہوم
سیکرٹری بنا ہے۔
تو
پس عزیزو، اسی طرح سندھی زبان کے اس عظیم کہانیکار کی اپنی کہانی خون میں ڈوب کر
سندہ ایک خونی پورا باب تحریر کر گئی