میہڑ/ وارہ, جلال پور کینال اور تھل کینال فیز ٹو ڈکیت کینال اور سندھ کو بنجر بنانے کے منصوبے ہیں،
عوامی تحریک نے دونوں کینالوں کو مسترد کر دیا۔ ان کینالوں کا کام رکوانے کے لیے میہڑ اور وارہ میں عوامی تحریک کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
سندھ میں پانی کی قلت ختم کرنے اور سندھ کے کسانوں اور آبادگاروں کو زمینیں آباد کرنے کے لیے پانی دینے کا مطالبہ۔
سندھ میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور پانی کی قلت کے خلاف عوامی تحریک تعلقہ میہڑ کی جانب سے رادھن اسٹاپ سے گھنٹہ گھر چوک تک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
جس کی قیادت عوامی تحریک کے مرکزی نائب صدر ایڈووکیٹ ساجد حسین مہیسر، مرکزی پریس سیکریٹری کاشف ملاح، ضلع دادو کے صدر ایڈووکیٹ نجیب الرحمان مہیسر، تحصیل میہڑ کے صدر ایڈوکیٹ منصور احمد چانڈیو، ایڈووکیٹ ذوالفقار چانڈیو، ایڈووکیٹ عبدالخالق بگھیو، ایڈووکیٹ شبیر احمد کوسو، ایڈووکیٹ منصور، رفیق جتوئی، سدھیر احمد چانڈیو، رستم علی سرگانی، امتیاز سیال، گلزار چانڈیو اور دیگر رہنمائوں نے کی.
دوسری طرف وارہ تعلقے کی شاخوں میں زرعی پانی کی عدم دستیابی کے خلاف سندھی ہاری تحریک کے مرکزی سینئر نائب صدر کامریڈ غلام مصطفی چانڈیو، عوامی تحریک ضلع قمبر شہدادکوٹ کے صدر عرفان منان، سندھی شاگرد تحریک کے مرکزی صدر عاطف ملاح، حمید انقلابی، مجیب چانڈیو، سہراب چانڈیو، آفتاب ہمت، حامد چانڈیو، خان محمد چانڈیو، ہوشو کنبھر، ستار برڑو، شہباز چانڈیو، زکریا چانڈیو اور دیگر نے عوامی ہاؤس وارہ سے ریلی نکالی اور شہید پر دھرنا دیا۔
پانی پر ڈاکے۔ نامنظور. جلالپور کینال_ نامنظور. تھل کینال فیز ٹونا منظور. ڈیم بنانا سندھ سکہانا بند کرو. پنجاب میں کینال بناناسندھ سکہانا بند کرو.
ٹی پی لنک کینال بند کریں. سی جی لنک کینال_ بند کریں. پنجاب کے ڈکیت کینال اور نہریں_ بند کریں.
شہریوں کو لوٹنا بند کرو۔
لوگوں کو مارنا بند کرو۔ ڈاکوئوں کی سرپرستی بند کریں۔
غیر ملکی اسمگلروں کی سرپرستی بند کریں. بھتہ خوری بند کرو. دہشت گردی بند کرو کے ریلیوں میں نعرے لگائے گئے۔
اس موقع پر رہنامائوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ پنجاب کا مفتوحہ خطہ نہیں ہے کہ پنجاب کے حکمرانوں نے سندھ کا پانی روک رکھا ہے۔
بین الاقوامی آبی ماہرین بتا رہے ہیں کہ فی الحال سندھ کے دریائی نظام میں پانی کی قدرتی کمی نہیں ہے۔
بلکہ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے پانی بڑی مقدار میں سندھو دریائی سسٹم میں پہنچتا ہے، اس کے باوجود ہمارے پاس پینے کا پانی نہیں، مویشی مر رہے ہیں، ہماری فصلیں سوکھ رہی ہیں۔
لیکن سندھ حکومت اس معاملے کو سی سی آئی میں لیجانے کو تیار نہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے حکمران محکمہ آبپاشی سندھ اور وفاقی حکومت کے ساتھ ملی بھگت کر کے سندھ تک پہنچنے والے تھوڑے بہت پانی کو کسانوں سے چھین لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے حکمرانوں کو کوئی پرواہ نہیں۔ جاگیرداروں، زمینداروں، وڈیروں اور پیپلز پارٹی کے وزیروں اور مشیروں کی زمینیں آباد ہو رہی ہیں، باقی کسانوں اور چھوٹے آبادگاروں کی زمینیں تباہ ہو چکی ہیں۔ کسانوں اور چھوٹے آبادگاروں کو پانی نہیں ملتا۔
اس وقت جب دریائی نظام میں پانی آگیا ہے، پنجاب کے ڈیم بھرے جا رہے ہیں، پنجاب کی سیلابی نہریں؛
تونسہ پنجند اور چشمہ جہلم لنک کینال کھول دیے گئے ہیں، جب پانی زیادہ مقدار میں ہوتا ہے تو ڈیم خالی کردیے جاتے ہیں اور سیلاب کے لیے بنایے گئے کینال کو بند کردیا جاتا ہے جس وجہ سے سندھ میں مصنوعی سیلاب آتا ہے.
اس وقت جب ہمارے پاس پینے کا پانی نہیں، سیلاب کے لیے بنائی گئی پنجاب کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ جلال پور کینال پنجاب کی ڈیڑھ لاکھ ایکڑ بنجر اراضی کو آباد کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، اس کینال کی وجہ سے سندھ کی ڈیڑھ لاکھ زرخیز زمین بنجر ہو جائے گی کیونکہ سندھ کے حصے کا پانی جلال پور کینال میں جائے گا اور پنجاب کی زمینیں آباد ہو جائیں گی۔
جیسے ٹی پی اور سی جی جیسے ڈکیت کینال سے پنجاب کی بنجر زمینوں کو آباد کیا گیا اور سندھ کی زرخیز زمینوں کو غیرآباد کیا گیا۔ اب جلال پور کینال کے ذریعے بھی وہی ہوگا. اوپر سے تھل کینال فیز ٹو بنا کر سندھ کو ایتھوپیا سے زیادہ تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ پنجاب کے حکمران ارسا کے ساتھ مل کر پانی کے معاملے پر سندھ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
ارسا کی جانب سے 27 جون کو دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق تونسہ سے سندھ کے لیے 169,332 کیوسک پانی چھوڑا گیا جب کہ گڈو بیراج میں 128,129 کیوسک پانی پہنچا۔
ایک ہی دن میں 41 ہزار کیوسک پانی کم ہوا! وہ 41 ہزار کیوسک پانی کہاں گیا؟
سندھ کے حصے سے وہ پانی کیوں کم ہوا؟ ایسا ظلم صرف ایک دن نہیں بلکہ روزانہ سندھ کا پانی ارسا کے بتائے گئے اعداد و شمار سے کم پہنچتا ہے،
یہاں تک کہ 26 جون 2023 کو تونسہ سے 160,883 کیوسک پانی چھوڑا گیا جو گڈو بیراج میں 115,192 کیوسک ریکارڈ کیا گیا یعنی وہاں بھی 45,691 کیوسک پانی گم ہوا۔
یہ پانی دراصل سندھ پنجاب بارڈر پر بیٹھے پنجاب کے حکمران چوری کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف ہمارے ساتھ پانی کے مسئلہ پہ ایسا ظلم ہے اور دوسری طرف ہمیں بدامنی کے جال میں پھنسایا گیا ہے۔
لوگوں کو اغوا کرنا، انہیں مارنا، لوٹ مار، ڈکیتی اور چوری روز کا معمول بن چکا ہے. ملک کے حکمران عوام کے جان و مال کے تحفظ کی آئینی ذمہ داری سے منہ موڑ چکے ہیں۔
ڈاکوؤں کو طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔
عوامی تحریک کے رہنماؤں نے پرزور مطالبہ کیا کہ سندھ کے پانی پہ لگنے والی ڈکیتی
کو بند کیا جائے اور اس کے ساتھ سندھ میں پیدا کیے گئے ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کو
روکا جائے اور لوٹ مار، ڈکیتی اور چوری میں ملوث جوابداروں اور ان کے ساتھیوں کے
خلاف سخت کارروائی کر انہیں گرفتار کیا جائے
.