گر ہوں بے کار تو غیرت سے نہ مارو مجھ کو
بکتے بازار میں نفرت سے نہ
ہارو مجھ کو
ایک انساں ہوں جہاں میں تمہی لوگوں کی طرح
میں ہوں عورت محبت سے
پکارو مجھ کو
مجھے آج بھی گھر والے اور خاص طور پر میری امی اکثر یہ بتاتی ہیں کہ
جب میں پیدا ہوئی تو پانچویں بیٹی ہونے پر کچھ لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا
اور میرے والد پر ایک اضافی بوجھ سمجھ کر ہمدردی کرنے لگے تھے لیکن ابو نے بخوشی
جواب دیا کہ یہ میں نے اللہ تعالیٰ سے سپیشل یعنی خاص طور پر مانگی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ میرے کچھ شرارتی بہن بھائی
بچپن میں یہ کہہ کر مذاق اڑاتے تھے کہ یہ ابو کی سپیشل ہے یعنی معاشرے کے ذہنی
معذور بچوں میں شمار کر کے خوب مستی کرتے اور میرا غصہ انجوائے کرتے تھے۔
بیٹی رحمت کا دروازہ، بخشش کا ذریعہ اور جہنم کی ڈھال ہے۔ زمانہ جاہلیت
کے لوگوں کو یہ سمجھانے میں ہمارے پیغمبرانِ دین
نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان میں شعور پیدا ہوا اور لوگوں نے بیٹیوں کو اہمیت
اور عزت دینا شروع کی۔
گزشتہ روز میانوالی میں ایک باپ نے اپنی سات روز کی نومولود کو پستول
کی گولیوں سے مار ڈالا۔ ذہن تب سے سخت الجھن کا شکار ہے۔ اور ایک کے بعد ایک سوال
کر رہا ہے۔
بات یہ نہیں کہ بیٹی کو مار ڈالا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے رویے میں اتنی
شدت کیوں؟؟ پستول کی گولیوں سے ہی کیوں؟؟ وہ پھول جیسی معصوم تو گلے پر دو انگلیوں
کا دباؤ بھی برداشت نہ کر پاتی۔
اور اگر رب اس کو بیٹے کی نعمت سے نوازتا تو اس بات کا کیا ثبوت ہے
کہ بیٹا اس کو دین اور دنیا دونوں میں سرخرو کروا دیتا یا پھر پڑھ لکھ کر اتنا بڑا
تیر مارتا کہ ساری زندگی کما کما کر باپ کو کھلاتا اور ساری خواہشات پوری کرتا اور
ساری دنیا اپنے باپ کے نام کروا دیتا۔ یا پھر یہ تمام خواہشات پوری نہ ہونے پر ایک
دن اپنے بیٹے کو بھی گولیوں سے چھلنی کر دیتا۔ یا پھر۔۔۔۔
یا پھر خود سر، سرکش اور جاہل بیٹے کے ہاتھوں خود ایک دن مارا جاتا۔
چلیں اس سے تھوڑا کم سوچتے ہیں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنتا اور اپنے
باپ کو کمتر اور حقیر سمجھ کر اس کو بڑھاپے میں اکیلا چھوڑ جاتا۔ یہ اس کی ایک
جھلک دیکھنے کو ترس جاتا اور مرتے دم تک اس کو دیکھنے کی خواہش ہی رہتی، دروازے پر
آنکھیں لگا کر بیٹھا رہتا۔ بڑھاپے کی وجہ سے کمانا مشکل ہوجاتا اور کمر جھائے ایک
کمزور اور نحیف بوڑھے کو دنیا میں کوئی بھی کام پر رکھنے پر راضی نہ ہوتا۔
اکیسویں صدی کے اس دور میں جہاں عورتوں کا عالمی دن منانے کے لیے
جھوٹے سچے لوگ سڑکوں پر آتے ہیں اور بڑے بڑے چارٹس پر درج کچھ اچھے اور کچھ بےہنگم نعروں کو اپنی آواز
بنا کران عورتوں کے حقوق مانگے جاتے ہیں جن کی حقیقی زندگی کےبارے میں فیصد کی صفر
حد تک بھی ان کو کوئی ادراک نہیں ہوتا۔
کون عورت کہاں حقوق سے محروم ہے کون اسے غیرت کے نام پر مار رہا ہے۔
کون اسے ہوس کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اور کن
فرائض کے نام پر اسے ظلم کی چکی میں پیسا
جا رہا ہے۔
تعلیمی اداروں کی تعداد اور معیار میں اضافے کے ساتھ ساتھ اگر
انسانوں کے کردار کی پرورش کی جائے تو بہت لوگ جانور بننے سے رہ جائیں گے۔ لیکن
افسوس تربیت ہمیں صرف سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے اور بھرپور نظر آتی ہے۔ لیکن
معاشرے میں عملی طور پر تربیت ناپید ہوتی جا رہی ہے۔
کاش کوئی سوچے کہ جس طرح پودوں کو پانی کے بجائے ہم کولڈ ڈرنک سے سیراب
نہیں کر سکتے اسی طرح صرف کتابوں میں موجود لفظوں کے رٹے ہمیں ایک باکردار انسان
نہیں بنا سکتے۔